بجٹ کی تیاریاں 

بجٹ سالانہ حسابات، اخراجات ، آمدن،ٹیکسز کی شرح کے تعین ترجیحات کا نام ہے۔ پہلے پہل سال میں صرف ایک ہی بجٹ آتا تھا اسی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا پتہ چل جاتا تھا سارا سال اس پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ اب بجٹ بے معنی سا ہو گیا ہے اور محض ایک خانہ پری کے لیے دستاویزات کی تیاری کا نام ہے کیونکہ ہر پندرہ دنوں کے بعد نیا بجٹ آ جاتا ہے، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ کوئی پیداواری لاگت کا درست تخمینہ نہیں لگا سکتا کیونکہ ہر پندرہ دنوں کے بعد بجلی، پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا جاتا ہے۔ اوپر سے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کے بارے میں بھی کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کس لمحے ایس آر او جاری کرکے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی شرح میں کمی یا اضافہ کر دیا جائے۔ حکومت دکھاوے کے لیے ظاہر کردہ حسابات میں بھی اتنے پوشیدہ رخنے چھوڑ دیتی ہے کہ عام آدمی کو اس کی سمجھ ہی نہیں آنے دیتی۔ اوپر سے بجٹ الفاظ اور ہندسوں کا گورکھ دھندا بن کر رہ گیا ہے۔ بجٹ کی تیاری میں غیر ملکی ڈونر ایجنسیوں، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر مالیاتی اداروں کی ہدایات، منصوبوں، قرضوں اور امداد کے حوالے سے معاہدات کی شقوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ حکومت بجٹ کی تیاریوں کے لیے چیمبر آف کامرس، مختلف تھنک ٹینکس اور ماہرین سے تجاویز بھی لیتی ہے۔ ان ہی تجاویز کے حوالے سے لاہور چیمبرز آف کامرس میں فیر کے زیر اہتمام نشست کا اہتمام کیا گیا فیر ایک اعلی سطح کا تھنک ٹینک ہے جو معروف ریٹائرڈ بیوروکریٹ عبدالباسط کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے جس میں معاشی ماہرین وکلاء صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شامل ہیں۔ لاہور چیمبرز آف کامرس کے صدر میاں ابو ذر شاد نے بتایا کہ آثار بتا رہے ہیں کہ اس سال حکومت اچھا بجٹ تیار کر رہی ہے جس کے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ 
ہمارے ہاں بجلی کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بجلی مہنگی ہے۔ ہم 22 سے 25 ارب ڈالر کا پانی ضائع کر دیتے ہیں۔ 4کروڑ افراد بھیک مانگ کر کھانا کھاتے ہیں۔ 10 کروڑ 53 لاکھ اکاؤنٹس ہولڈر ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ دودھ کی دوکانیں ہیں لیکن ایک کلو خالص دودھ نہیں ملتا۔ جس طرح کرکٹ ٹیم چل رہی ہے ایسے ہی ملک چل رہا ہے۔ بہرحال حکومت کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیص اسلم نے کہا کہ بنیادی نقص ہمارینظام تعلیم میں ہے۔ ہم بچوں کو جو تعلیم دے رہے ہیں وہ تعلیم نہیں ہم بچوں کو اپاہج بنا رہے ہیں۔ ہماری اکانومی ایکسٹینشن ٹو ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔ ہمارے حکمرانوں سمیت ہر بااثر فرد قانونی یا غیر قانونی طور پر پیسہ باہر لے جا رہا ہے۔ عبدالباسط خان نے کہا کہ ہماری اکانومی دستاویزی نہیں۔ لوگ بنکوں میں پیسہ جمع نہیں کرواتے۔ لوگوں پر سے سرکار کا خوف ختم کرنا ہو گا۔ ٹیکسوں کا نظام آسان بنانا ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ اعداد وشمار درست نہیں کہ کراچی سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ پنجاب کی ساری انڈسٹری کی امپورٹ ایکسپورٹ کراچی پورٹ سے ہوتی ہے۔ اس کاٹیکس بھی کراچی پورٹ پر جمع ہوتا ہے۔ پنجاب کو تو ایکسپورٹ پر بھی ون پوائنٹ ایٹ پرسنٹ ٹیکس دینا پڑتا ہے جبکہ کراچی پر کوئی ٹیکس نہیں۔ لاہور چیمبرز آف کامرس کے نائب صدر علی اسلام نے بتایا کہ پہلے ہم برین ڈرین کا رونا روتے تھے اب بزنس بھی ڈرین ہو رہا ہے۔ ہمیں آج کے نوجوان کو پاکستان میں بزنس کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ سکلڈ ورکرز پیدا کرنا ہوں گے، لوگوں کو ٹیکسوں کی ادائیگی کے حوالے سے اعتماد میں لینا ہو گا۔ راقم نے کہا کہ پاکستان کا تاجر، صنعتکار،سرمایہ کار عزت مانگتا ہے۔ ہمارے ادارے لوگوں کی سہولت کاری کی بجائے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں، بلیک میل کرتے ہیں، ان کے جائز کاموں کے راستے میں بھی روڑے اٹکا کر پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کلچر سے جان چھڑوائے بغیر بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ اوپر سے بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ملک کو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چلارہے ہیں۔
 ہماری پالیسیوں میں تسلسل نہیں، ہم ایک سال ایک شعبہ پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں اس شعبہ کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے۔ اگلے سال ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ درست نہیں۔ اگلے سال ہم اس شعبہ میں ٹیکس کم کرکے کسی دوسرے شعبہ پر ٹیکس لگا دیتے ہیں۔ ہم زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ٹیکس نہیں لگاتے بلکہ اپنی کولیکشن کے اہداف پورے کرنے کے لیے ٹیکس لگاتے ہیں۔ ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ جس ملک کی سیاسی جماعتوں کے پاس وزیر خزانہ نہ ہو اس ملک کی اقتصادیات کیا ہوں گی۔ ہر سیاسی جماعت مانگے تانگے کے وزیر خزانہ سے کام چلاتی ہے۔ یہاں بجلی کا بل جمع نہ کروانے پر آپ کا بنک اکاؤنٹ بند ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی اکانومی روز اول سے دِگرگوں ہے جو پون صدی گزرنے کے باوجود درست نہیں ہو رہی۔ ویسے آپ لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جس طرح ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے اسی طرح پاکستان کی معیشت بھی محفوظ ہاتھوں میں ہے اس لیے آپ نے گھبرانا نہیں۔ جون میں جب بجٹ آئے گا تو حکومتی سائیڈ سے واہ واہ کے نعرے بلند ہوں گے جبکہ اپوزیشن مرگئے مرگئے کی گردان کرتی دکھائی دیگی۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ مَیٹر نہیں کرتے۔

ای پیپر دی نیشن