آئی ایم ایف کی پھر حوصلہ افزا رپورٹ 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب 92 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ آئندہ مالی سال 26-2025ء میں ذخائر 17 ارب 68 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہنے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی سٹاف کنٹری رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ سال کے دوران پاکستان کی معاشی شرح نمو میں اضافے ہو سکتا ہے جبکہ رواں مالی سال معاشی نمو 2.6 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ سال مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے۔ اعداد و شمار اور تخمینے اپنی جگہ، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ معاشی تبدیلیاں عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر ڈالیں گی؟ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ملک کا ایک بڑا حصہ آج بھی مہنگائی، بیروزگاری اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے میں جب ارکانِ پارلیمان اور اعلیٰ سرکاری حکام کے لیے مہنگی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اور ان کی مراعات و تنخواہوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جاتا ہے تو یہ عمل عوام کی محرومیوں کا مذاق اڑانے کے مترادف لگتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق، پاکستان ہر سال تقریباً ساڑھے سترہ ارب ڈالر اشرافیہ کو دی جانے والی سہولیات پر خرچ کرتا ہے۔ وسائل کی اس غیرمنصفانہ تقسیم نے نہ صرف داخلی ناہمواری کو بڑھایا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ حکومت چاہے داخلی سطح پر اظہارِ رائے پر قدغن لگادے مگر بین الاقوامی اداروں کی آزاد اور غیرجانبدار رپورٹنگ کو خاموش نہیں کر سکتی۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرے۔ اگر حقیقی ترقی مقصود ہے تو اشرافیہ کی بے جا مراعات میں کمی لا کر قومی وسائل کو تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے مختص کرنا ہوگا۔ خوشحالی وہی ہے جو دیہی علاقوں اور شہروں کے گلیوں اور محلوں میں عام لوگوں کی زندگی میں نظر آئے نہ کہ صرف اشرافیہ کی پرتعیش بستیوں میں۔ پاکستان کی پائیدار ترقی کا انحصار صرف عوامی فلاح پر ہے، طاقتور طبقوں کی آسائش پر نہیں۔

ای پیپر دی نیشن