سکھ برادری اور بھارتی جنتا پارٹی کی مذہبی انتہا پسندی

ویسے تو اقلیتوں کے حوالے سے بھارت سے کسی خیر کی توقع کرنا ناممکنات میں سے ہے لیکن ہندو انتہا پسند بی جے پی کے دور میں ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور سکھوں کی مذہبی, معاشرتی اور معاشی تباہی اور شناخت ختم کرنے کے لیے ریاستی سرپرستی میں تحریک جاری ہے.مودی کی متعصبانہ سوچ نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی سرزمین سکھوں کے لیے بھی تنگ کر دی ہے  اور ان  کے احساسات اور جذبات کے ساتھ کھیل رہا ہے۔  حالیہ جنگ میں تاریخی عزیمت اٹھانے کے بعد مودی حکومت اپنے اوسان کھو بیٹھی ہے اور  اپنی ہزیمت کا بدلہ چکانے کے لیے اقلیتوں کے مذہبی  مقامات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا ہے سکھ برادری کی کرتارپور راہداری کو بند کر نا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بھارت کی طرف سے یہ قدم  انتہا پسندانہ نظریات کی عکاسی ہے  اس کے برعکس  پاکستان نے کبھی بھی عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ حتیٰ کہ جنگی حالات میں بھی پاکستان نے کرتارپور راہداری کو بند نہیں کیا۔ ایک طرف پاکستان ہے، جو جنگ کے ماحول میں بھی کرتارپور راہداری کھلی رکھتا ہے تاکہ سکھ زائرین اپنی عبادات اور مذہبی رسومات بلا خوف انجام دے سکیں، اور دوسری طرف بھارت ہے، جو مہاراجہ رنجیت سنگھ جیسے سکھ ہیرو کی برسی پر بھی پاکستان میں سکھوں کے داخلے پر پابندی لگا دیتا ہے۔یہی ہے اصل فرق ہے ایک طرف مذہبی ہم آہنگی، دوسری طرف مذہبی انتقام جب بھارت میں مسلمانوں کو ''پاکستانی'' کہہ کر تشدد کیا جا رہا ہے، اور سکھوں کی وفاداری پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، تب پاکستان سکھ برادری کو اپنے دل اور دروازے دونوں کھول کر خوش آمدید کہہ رہا ہے۔یہ دو قوموں کا فرق نہیں، یہ دو نظریات کا فرق ہے۔ جنگ کے دنوں میں بھی پاکستان نے کرتارپور راہداری بند نہ کی  یہ ہے اصل رواداری بھارت نے سکھوں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی پر بھی روک دیا  یہ ہے مذہبی انتقام۔پاکستان، اقلیتوں کا محافظ بھارت، اقلیتوں کا دشمن۔ہمارا پیغام واضح ہے کہ قائداعظم کا پاکستان آج بھی ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے جبکہ اس کے برعکس بی جے پی کا ٹریک ریکارڈ واضح ہے، سکھ ان کو صرف سرحد پر جان دینے کے لیے چاہیے، باقی وقت انہیں مشکوک، علیحدگی پسند اور  غیر وفادار سمجھا جاتا ہے آدم پور بیس پر مودی کا  گوبند سنگھ" کا حوالہ کوئی روحانی عقیدت نہیں بلکہ ایک سیاسی چال ہے۔ بی جے پی سرکار سکھوں اور بدھ مت کے ماننے والوں پر ڈھائے گئے مظالم کی پردہ پوشی کر رہی ہے، جن کے زخم آج بھی تاریخ کی پیشانی پر تازہ ہیں۔مودی گوبند سنگھ کا نام لے کر سکھوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، یہی مودی ہے جس کے دور میں سکھ کسانوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں، اب ان کے جذبات سے کھیل رہا ہیسکھوں 1984 کے دہلی فسادات نہیں بھولے جس میں 3000 سے زائد سکھ قتل کیے گئے، کانگریس نے آغاز کیا، مگر بی جے پی نے انصاف دفن کیا۔ آج تک بیشتر مجرم آزاد گھوم رہے ہیں 2020 اور 2021 کے کسان احتجاج میں 750 سکھ کسان مارے گئے، بی جے پی نے انہیں ''خالصتانی'' اور ''ملک دشمن'' قرار دے کر عوامی نفرت بھڑکائی مودی سرکار نے سکھ کسانوں کے مطالبات پر طاقت کا جواب دیا،  گولڈن ٹیمپل 1984 کا آپریشن بلیو اسٹار، بھارتی فوج نے مقدس مقام پر حملہ کیا، ہزاروں بے گناہ شہید، مودی نے آج تک اس ظلم کی مذمت نہیں کی  ?2021 میں آر ایس ایس رہنما نے سکھوں کو "ادھورے ہندو" قرار دیا، یہ وہ نظریہ ہے جسے بی جے پی پروان چڑھا رہی ہے۔ابھی معاملہ یہاں رکا نہیں اس کی تازہ مثال  مدھیہ پردیش کے بی جے پی وزیر کوَنوَر وجے شاہ  نے بھرے جلسے میں سیکولر بھارت کی قلعی کھول دی۔ وزیر موصوف نے مسلمان لیڈی افسر صوفیہ قریشی کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا  مسلم خاتون کرنل صوفیہ قریشی آپریشن سیندور میں بھارتی فوج کی ترجمان تھیں۔  کتنی بدنصیبی ہے کہ کرنل صوفیہ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنی حب الوطنی ثابت کرنا پڑھ رہی ہے وزیر موصوف کے توہین آمیز بیان نے بھارت کے سیکولر دعووں کی قلعی کھول دی۔ بی جے پی لیڈر کی طرف سے ایک محب وطن مسلمان افسر کے خلاف نفرت انگیز بیان بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی واضح مثال ہے۔مذہبی انتہا پسندی کے تمام واقعات کے بعد اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سیکولر بھارت صرف ایک سراب ہے۔ حکمران جماعت کے وزیر کے بیان نے ہندو اور مسلم کمیونٹیز کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ہندوستان میں بسنے والے اقلیتوں کی حالت زار کو دیکھ کر بابائے قوم قائداعظم کا نظریہ آج  ایک دفعہ پھر  سچ ثابت ہو رہا  ہے آج کا بھارت قائد کے اس فیصلہ کو درست ثابت کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن ناگزیر تھا ''پاکستان ہمیشہ زندہ باد''

ای پیپر دی نیشن