تجارتی پابندی کی دھمکی سے بھارت جنگ بندی پر آمادہ ہوا‘ امریکہ۔
اب لاکھ نریندر مودی انکار کریں‘ حقیقت سے آنکھیں چرا نہیں سکتے جب خود امریکی صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو ہم نے تجارت بند کرنے کی دھمکی دی تو وہ جنگ بندی پر آمادہ ہوا۔ کہتے ہیں ناں! بینئے کا بیٹا ہے‘ کچھ دیکھ کر ہی گرا ہوگا۔ سو امریکہ جانتا ہے کہ جاں رگ یہود و ہنود تجارت و کاروبار میں بندھے۔ چنانچہ ٹرمپ کا کاری وار بھارت کا مہان وزیراعظم برداشت نہ کر سکا اور تجارت پر پابندی کے خوف سے ہی انکی دھوتی گیلی ہو گئی اور وہ ٹرمپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر جو مرضی میرے سرکار کی کہتے ہوئے ڈنڈوت میں چلے گئے۔ پہلے تو مسلسل انکار کرتے رہے کہ امریکہ کے کہنے پر جنگ بندی نہیں کی‘ اب پتہ چلا ہے کہ ٹرمپ کی دھمکی سے ڈر کر ہی بھارت جنگ بندی پر آمادہ ہوا۔ امریکہ نے دیکھ لیا کہ 4 روزہ جنگ میں پاکستان کی ماہر لڑاکا افواج نے کس طرح تاک تاک کر نشانے لگائے اور سول آبادی کی بجائے فوجی تنصیبات کے علاوہ بھارتی لڑاکا طیاروں کا غرور خاک میں ملا دیا۔ اب یہ سب جانتے ہیں کہ ہارے ہوئے گھوڑے پر کوئی شرط نہیں لگاتا۔ جو جیتا وہی سلطان کہلاتا ہے۔ اب تو امریکی صدر ایپل کمپنی کے سی ای اوکو بھی خبردار کیا ہے کہ وہ بھارت میں اپنے کاروبار کو پھیلانے میں محتاط رہے۔ بھارتی اشیاء کی ساکھ عالمی سطح پر بری طرح متاثر ہوئی ہے‘ اب کہیں یہ لوگ ایپل کمپنی کو بھی نہ لے ڈوبیں جبکہ دوسری طرف پاکستان نے کہا ہے کہ وہ بطور سٹرٹیجک پارٹنر امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانا چاہتا ہے۔ جس کیلئے طویل منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور علاقے میں امن کیلئے کشمیر جیسے دیرینہ تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل پر زور دیا جا رہا ہے جس سے بھارت والوں کو خوب مرچیں لگ رہی ہیں۔ وہ کشمیر کا نام بھی عالمی سطح پر سننے کے روادار نہیں جبکہ پاکستان امریکہ یا کسی کو بھی ثالثی میں یہ مسئلہ حل کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت ایسا کرنے سے بھی انکاری ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ رائے شماری کا نتیجہ بھارت کیخلاف ہی نکلے گا۔ اس وقت پاکستان کی بھرپور حمایت پر بھارت کو ویسے بھی ترکی اور آذربائیجان سے بھی بہت سخت شکایت ہے مگر کچھ کہنے کا یارا نہیں ہے۔
٭…٭…٭
پاکستان نہ آئیں‘ سلمان اور قاسم عالمی رہنمائوں سے اپنے والد کی رہائی کیلئے دبائو ڈلوائیں۔
پہلے تو بڑے دکھ کی بات ہے کہ اولاد جوان ہو‘ مالی طور پر بھی آسودہ ہو‘ ایک آزاد معاشرے میں عیش کی زندگی بسر کر رہی ہو‘ کہیں آنے جانے پر بھی کوئی پابندی نہ ہو‘ کیا انکے دل میں ایک مرتبہ بھی خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ وہ پاکستان آکر جو ان کا آبائی وطن ہے‘ باپ کی طرف سے اور اڈیالہ جیل میں قید اپنے والد محترم سے ملاقات کرکے ہی اپنی آنکھیں اور انکے دل کو ٹھنڈا کریں۔ اڈیالہ جیل میں قید قاسم اور سلمان کے اباسے ویسے بھی تو درجنوں لوگ جن میں انکے اہلخانہ‘ وکیل اور پارٹی کے رہنماء اور اتحادی جماعتوں کے سربراہ ملاقات کرتے رہتے ہیں اور بانی کے فرمودات سے دنیا کو آگاہ کرتے ہیں‘ وہ تو چلیں سیاسی معاملات ہیں‘ مگر یہ جو باپ اور بیٹے کا رشتہ ہے‘ یہ تو ہمارے معاشرے میں سب سے اہم اور بڑا رشتہ تصور ہوتا ہے۔ بیٹے اپنے باپ کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں‘ اسکے رکے کاموں کو مکمل کرتے ہیں والد کی نصیحت اور وصیت پر عمل کرتے ہیں‘ چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ شاید اسے ہی غیرت اور خاندانی وقار کا نام دیا جاتا ہے جو یورپ میں موجود نہیں۔ بہرکیف قصہ مختصر سلمان اور قاسم کیلئے پاکستان شجر ممنوع نہیں‘ یہاں انکے آبائی گھر ہیں۔ میانوالی‘ لاہور‘ اسلام آباد میں جہاں چاہیں وہ رہ سکتے ہیں‘ ٹھہر سکتے ہیں اور اپنے والد سے ملاقاتیں کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنا اچھا رہے گا۔ باقی رہی بات عالمی رہنمائوں اپنے والد کی رہائی کیلئے دبائو ڈالنے کی اپیل تو وہ اپنی جگہ ان کا حق ہے۔ وہ کہہ سکتے ہیں‘ والدین تو اپنی اولاد سے ملاقات کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اب لگے ہاتھوں اگر دونوں بھائی پاکستان آئیں تو انکے والد کی پارٹی کے رہنماء بھی تازہ دم ہو جائیں گے اور قیدی کا بھی سیروں خون بڑھ جائیگا۔ ان دونوں کی پھوپھیاں بھی پاکستان میں ہی رہتی ہیں‘ باقی رشتہ دار بھی ہیں۔ ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ جب تک باپ وزیراعظم تھا‘ یہ دونوں بنی گالہ میں چھٹیاں گزارنے آتے تھے۔ وہاں قیام کرتے تھے تو اب آنے سے کون روکتا ہے۔
ٹرمپ عرب ممالک کے جمالیاتی ذوق اور معاشی ترقی کے سحر میں کھو کر رہ گئے۔
امریکی صدر ٹرمپ تو مشرق وسطیٰ یعنی عرب ممالک کے دورے میں انکی عالی شان مساجد‘ جدید شاپنگ پلازے‘ سر بفلک عمارتیں اور پرتعیش محلات دیکھ کر تو کافی دیر سکتے میں چلے گئے۔سعودی عرب‘ قطر‘ عرب امارات میں انہوں نے جو دیکھا اس طرز حیات کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ تو
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی
بھی نہ کہہ پائے۔ ان ممالک میں دنیا کی بہترین محفوظ اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے وہاں کے حکمرانوں نے اپنے ممالک کو بے شک رشک جناں بنا دیاہے‘ دنیا کی کونسی چیز ایسی ہے جو وہاں دستیاب نہیں۔ خود امریکہ اور یورپ سے پہلے انکی ایجادات عرب ممالک کی مارکیٹ میں جگہ بنانے کیلئے نت نئے حربے استعمال کرتے ہیں۔ ترقی امریکہ اور یورپ میں بھی بہت ہوتی ہے مگر وہ ہمارے جو برعکس سائنس ٹیکنالوجی انسانی فلاح و بہبود‘ امراض سے نجات اور ماحولیاتی نظام کو تباہی سے بچانے کیلئے ہے۔ وہاں کے حکمران محلات کی بجائے حقیقی تعلیمی مراکز کے قیام پر زور دے کر دنیا میں حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب موازنہ کیا ہے کہ جب برصغیر میں مغل بادشاہ شیش محل‘ تاج محل‘ شاہی قلعے حمام‘ باغات کو بے مثال بنانے پر توجہ دے رہے تھے‘ یورپ میں اس وقت اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کی دوڑ لگی ہوئی تھی جہاں ذہین طلبہ مستقبل پر قابو پانے کیلئے نت نئے علوم میں آگے بڑھ رہے تھے اور ہمارے حکمران مقبرہ جہانگیر‘ مقبرہ ہمایوں‘ مقبرہ شہنشاہ اکبر کو شالیمار‘ نشاط اور مغل گارڈنز کو حسن بے مثال عطا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اگر ہم بھی سائنس و ٹیکنالوجی علم و ادب‘ حساب الجبرا اور دیگر جدید علوم کی طرف راغب ہوتے تو امریکی صدر ٹرمپ عرب مسلمانوں کی سائنسی و فنی مہارت کے قصیدے گاتے نظر آتے۔ ورنہ خودامریکہ میں بھی تو ’’گرجوں سے کئی بڑ ھ کہ ہیں بنکوں کی عمارات‘‘ کا فلسفہ حقیقت کی طرف موڑ ا جا چکا ہے اور ہمارے ہسپتال‘ تعلیمی اداروں میں غیرمسلم آکر ہمیں دس دیتے اور ہمارا علاج کرتے نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ ہم نے ترقی کیلئے غلط میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیمی میدان میں ترقی کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔
چینی کی قیمت کم کی جائے‘ اسحاق ڈار نے حکم دیدیا۔
اس بار گندم کی بھرپور پیداوار کے باوجود مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کنٹرول نہیں ہو رہی‘ روٹی کی قیمت ابھی تک تمام تر حکومتی اعلانات کے باوجود کم نہیں ہو پائی تو ایسے میں ڈپٹی وزیراعظم کے اس نئے اعلان یا ہدایت پر کون عمل کریگا کہ چینی کی قیمت میں فوری کمی کی جائے۔ کیونکہ اللہ کے کرم سے اس بار گنے کی پیداوار بھی بھرپور رہی ہے۔ مگر جب تک گندم اور گنے کی خریداری کرنے والی فلور اور شوگر ملز کی اجارہ داری برقرار رہے گی‘ مناپلی قائم رہے گی تب تک آٹا اور چینی کی طلب و رسد کو یہی مہنگائی مافیا کنٹرول کرتا رہے گا۔ تو نہ آٹے کی نہ ہی چینی کی بازار میں قیمت کم ہوگی۔ صرف دل سوز اپیل کرنے سے فلور اور شوگر ملز مالکان کے دل نہ پہلے نرم ہوئے تھے‘ نہ اب ہونگے۔ انہیں بھرپور منافع کمانے کی عادت پڑ چکی ہے۔ وہ بازار تک میں قیمتیں خود جاری کرتے ہیں تو حکومت کا کام صرف اعلان کرنا ہی رہ گیا ہے۔ یہ مافیا حکومتی اقدامات کے ثمرات عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ انہیں ذرا ہاتھ لگائیں تو یہ نہایت چالاکیسے ایسا ڈرامہ کرتے ہیں کہ بازار سے آٹا اور چینی گدھے کے سر کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتی ہے۔ مصنوعی گرانی اشیاء شارٹ ہونے کی قسط وار ڈرامہ سیریل ایسی چلاتے ہیں کہ عوام بھی کچھ سوچنے سمجھنے سے محروم ہو کر انکی باتوں میں آجاتے ہیں۔ حکومت تو پہلے ہی انکی جیب میں ہے۔ خدا کرے اب ایسانہ ہو اورچینی آٹے کی قیمت واقعی کم ہو۔