ایک وہ وقت تھا جب 19 فروری 1999ء کو لاہور دہلی بس سروس کا آغاز ہوا تھا ۔ دونوں ملکوں کے مسافروں کی اس سہولت کو دوستی کا نام دیا گیا۔ کارگل کی جنگ ہوئی تو بھی یہ بس سروس جاری رہی۔ پھر یہ سلسلہ اس وقت کچھ وقت کے لئے معطل رہا جب بھارتی پارلیمان پر حملہ کا شور مچا۔ عجیب بات ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے اس بہانے پاکستان کے خلاف زہر اگلا۔ اب ایک بار پھر وہی کچھ کیا گیا جس کی توقع تھی۔جمعتہ المبارک کو ملک بھر میں یوم تشکر منا نا کسی حوالے سے رسمی کارروائی محسوس نہیں ہوئی۔قوم کے تمام شعبے اللہ کا شکر بجا لانے میں اس لئے پیش پیش تھے کہ ایک مکار دشمن کی طرف سے جارحیت ایسے دور میں کی گئی جب روائتی جنگ خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہے۔ مئی کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں بھارت نے ہمیشہ کی طرح پہل کی۔ میزائلوں کے ساتھ دور حاضر کی ٹیکنالوجی ڈرونز بھی میدان میں لایا ۔ بظاہر بازی آر ایس ایس جیسی انتہا پسند بھارتی تنظیم کی مودی حکومت کے ہاتھ میں تھی لیکن اپنے اللہ پر بھروسہ رکھنے والی پاکستانی سپاہ اور اللہ کے حکم کے مطابق بنیان مرصوص میں ڈھل جانے والی پاکستانی قوم نے میدان حرب و ضرب میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ پاکستانی وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس تاریخ کی حیران کن جنگ کے اچانک آغاز اور پاکستان کی طرف سے جواب کے بعد اچانک جنگ بندی کا اس طرح اعلان کیا کہ پوری دنیا حیران تھی۔دنیا بھر میں بھارتی فضائیہ کی تباہی کے چرچے تھے اور بھارتی قیادت اور اس سے زیادہ ان کا میڈیاشرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ جس طرح محمد علی کلے نے 1965ء میں صرف 130 سیکنڈز میں سونی لسٹن کو ناک آئوٹ کر کے عالمی ریکارڈ بنایا تھا اسی طرح پاکستانی فضائیہ نے صبح نماز فجر کے بعد جنگ کا آغاز کیا اور چند۔لمحوں میں بھارتی رافیل تاریخ کے اصحاب فیل کی طرح ہچکولے کھاتے ہوئے بھس کی طرح تاریخ کا حصہ بن چکے تھے۔اپنی کامیابی پر بھارتی قیادت کی طرح منفی بیان بازی کی بجائے پاکستانی قیادت نے اللہ کے حضوراظہار تشکر کا صحیح فیصلہ کیا ہے۔ پورے ملک میں یوم تشکر کے مظاہرے ظاہر کرتے ہیں کہ آپس میں محاذ آرائی کی جو بھی صورت رہے جب بات وطن عزیز کی آتی ہے تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔بنیان مرصوص کی طرح۔ اس بار فوج اور عوام نے جس طرح مل کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اور کامیابیاں سمیٹی ہیں تو چین ترکی اور دوسرے دوست ممالک سے محبت کا کھلم کھلا اظہار بھی ہمارے تشکر کا حصہ بننا چاہئیے۔ چین تو اس شعر کی صورت جلوہ گر ہوا کہ
دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
اس جنگ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عوامی حلقے بھی اپنی سپاہ کی طرح ہائی مورال کے ساتھ اپنے روزمرہ کے کاموں مصروف نظر آئے۔ چونکہ پنجاب ہمیشہ کی طرح بھارتی دہشت گردی کا مرکزی نشانہ بنا اس لئے پنجاب حکومت پر ذمہ داریاں بھی دوسرے صوبوں کی انتظامیہ سے زیادہ رہیں۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف اور ان کی ٹیم تاریخ کے ان اہم لمحات میں اپنی ذمہ داریوں کے مورچوں پر ہمہ وقت چوکس رہیں۔ خصوصی طور پر شعبہ صحت نے اہم کردار ادا کیا۔وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور سیکرٹری صحت عظمت محمود خان اور سپیشل سیکرٹری طارق محمود رحمانی کی موثر رابطہ کاری کے باعث ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم کر کے فوج کے ساتھ شانہ بشانہ رہنے کا اعلان کیا۔جنگ کے دوران ہسپتالوں کو جگائے رکھنے کی ضرورت ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ صوبائی وزیرصحت خواجہ سلمان رفیق نے اپنی وزیر اعلی مریم نوانز شریف کی پالیسی کے تحت رات دن ہسپتالوں کے دورے جاری رکھے۔ اسی سلسلے میں میو ہسپتال لاہورکے وزٹ کے دوران ڈیپارٹمنٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن کا دورہ بھی کیا اور فیکلٹی سے ملاقات کی۔صوبائی وزیرنے ورکشاپ اور سٹورروم کا بھی معائنہ کیااور مریضوں کی عیادت کی۔اس موقع پر سی ای او میو ہسپتال پروفیسرہارون حامد،ڈاکٹر اسد عباس شاہ، ڈاکٹروجاحت کمال اور ڈاکٹر عرفان مرزاموجود تھے۔ صوبائی وزیرصحت خواجہ سلمان رفیق نے کہاکہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج و معالجہ میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اولین ترجیح ہے۔ جنگ ہو یا امن سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کیلئے آسانیاں پیداکی جاتی رہیں گی اوروزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ویڑن کے مطابق صحت عامہ کیلئے ہر ممکن اقدام ہو گا۔ ایک اچھی بات یہ کی گئی ہے کہ ہسپتالوں کی انتظامی بنت کا مسئلہ پہلی بار مضبوط بنا دیا گیا ہے اورپنجاب حکومت نے ایک لمبے عرصہ کے بعد لاہور کے 6بڑے ہسپتالوں سمیت صوبہ بھر کے 32ٹیچنگ ہسپتالوں میں مستقل میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کی تعیناتیاں کر دی گئی ہیں۔ محکمہ اسپیشلائیزڈ ہیلتھ کیئر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جناح ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر محسن شاہ کو مستقل ایم ایس تعینات کردیا گیا ،پی آئی سی لاہور میں ڈاکٹر عامر رفیق بٹ ،سروسز ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر عابد محمود غوری ، مینٹل ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر ثاقب باجوہ ، کوٹ خواجہ سعید ہسپتال میں ڈاکٹر عدنان القمر،لیڈی ایچی سن ہسپتال میں ڈاکٹر صوبیہ جاوید ، ڈاکٹر یاد اللہ کو ڈی جی ہیلتھ پنجاب کے آفس سے ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کا ایم ایس تعینات کر دیا گیا ہے ، رانا خرم کو سروسز ہسپتال سے سرگودھا ٹیچنگ ہسپتال کا مستقل ایم ایس تعینات کردیا گیا ہے۔اورعنقریب لاہور جنرل ہسپتال ، میو ہسپتال اور گنگارام ہسپتال میں بھی مستقل ایم ایس حضرات کا تقرر عمل میں آئے گا۔چونکہ ان ہسپتالوں کے موجودہ ایم ایس صاحبان جنرل ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر فریاد حسین ، گنگا رام ہسپتال کے پرفیسرڈاکٹر عارف افتخار نے حالیہ بھارتی جارحیت کے دوران اور اس سے پہلے بھی اپنی بہترین انتظامی صلاچیتوں کا مظاہر ہ کیا ہے اس لئے انہیں بھی حالیہ بعض تقرریوں کی طرح مستقل ایم ایس لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف بھارت میں جنگ کے بعد کا منظر یہ ہے کہ ہر طرف بحران اور زندگی کے تمام شعبو ں میں ہاہا کار مچی ہے تو دوسری طرف پاکستان میں اور خاص طور پر جنگ کا زیادہ سامنا کرنے والے صوبے پنجاب میں تعلیم زراعت صحت تجارت اور تمام شعبوں میں گہما گہمی ہے۔ اس پس منظر میں اظہار تشکر کے ساتھ بھارت کے عوام کو بھی یہ پیغام دیا جا سکتا ہے۔ چلو یہ شوق پورا کر لیا تم نے بھی ہم نے بھی۔۔ نتیجہ جلد دیکھا جنگ کا تم نے بھی ہم نے بھی۔
لہو سے یا گلابوں سے ہمیں سرحد سجانی ہے
یہی تو کرنا ہے اک فیصلہ تم نے بھی ہم نے بھی
٭…٭…٭