گزشتہ چند دن اور پھر 10 مئی اقوام عالم میں پاکستان ایک نئی قوت کے طور پہ وجود میں آیا ، اب ہمیں اپنے اس تاثرکو قائم رکھنے اور بہتر بنانے پر کام کر نا ہے اورہمیں یہ یا د رکھنا ہے کہ اگر ہم نے معاشی ترقی نہ کی اور ایک قوم کے طور پہ اپنے کردار کو ایک بہترین اور ایماندار قوم کے طور پہ توجہ نہ دی تو دنیا بھولتے دیر نہیں لگاتی دنیا کے روئیے ہر معاملے میں عمومی طور پہ ایک جیسے ہوتے ہیں کچھ بہت پرانی بات نہیں ہے پاکستان ہاکی کے میدانوں میں حکمرانی کرتا تھالوگوں کو ایشین ہاکی ہی یاد تھی ہندوستان اور پاکستان کے مقابلے ہی ہاکی کی جان ہوتے تھے آج کہیں موجود ہی نہیں ہیں۔
کبھی پاکستان کی کرکٹ کے چرچے زبان زد عام ہوتے تھے ہمارے فاسٹ باؤلرز نے ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بولرز کی ہبیت ختم کر دی تھی، وسیم اکرم، وقاریونس، شعیب اختر ،محمد عامر، محمد آصف،عمران خان اپنے اپنے انداز میں عظیم تھے، بلے باز شعیب اختر کے باؤنسر سے بچنے کی دعا کرتے تھے ۔وسیم اکرم آصف کی سوئنگ سے ڈرتے تھے ،وقار اور عامر دونوں بہترین باؤلرز تھے۔ عمران خان ایک ذہین باؤلر اور کپتان کے طور پہ اپنی پہچان رکھتے تھے مگر آج کیا وقت ہے کہ ہر میچ میں کوئی نہ کوئی گمنام باؤلر ٹرائی ہوتا ہے اور ناکامی مقدر بنتی ہے۔ بھارت صرف سپرز رکھتا تھا ڈھونڈے فاسٹ باؤلر نہیں ملتا تھا کبھی جاوید میاں داد، محمد یوسف ،یونس خان، سعید انور حیسے بلے باز ہوتے تھے مگر آج کیا حال ہے کبھی جھارا پہلوان اورْ پہلوانی سمبل تھی آج نام نشان بھی نہیں اسکواش پہ ہم حکمران تھے ،جہانگیر خان، جان شیر طویل مدت تک بادشاہ رہے آج ہم گھر کے بھی نہیں دنیا کی کیا بات کریں ۔
قوم کو اور سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ یہ وقت ہے قوم کی رہنمائی کا اور یکجا کرنے کا اور ترقی کیلئے آگے بڑھنے کا یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ عزت کس کے حصے آئے گی مگر اب کام کرنے کا وقت ہے آج تو دنیا بھر میں پاکستان کی افواج کی اور دفعہ وطن کی بھر پور داد دی جا رہی، فوج کے سربراہ کو ایک عظیم جرنل کے طور پہ دیکھا جا رہا ہے دنیا انہیں آئرن مین، سٹیل مین کے الفاظ سے پکارنے لگی یے جو نہ جھکتا ہے نہ ڈرتا یے نہ مانتا ہے صرف جیتنا جانتا ہے قوم کو اپنے سپہ سالار کی اس عزت کو قائم رکھنے پر کام کرنا ہوگا ۔سیاسی اکابرین کو اپنے اطوار بدلنے ہوں گے، اپنے اندر ذہانت اور مینجمنٹ کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کیساتھ ساتھ نفرتوں کے خاتمے اور سیاسی بالغ رائے کو فروغ دینا ہوگا۔
اور یاد رکھنا ہوگا کہ تاریخ میں نام زندہ رکھنے کیلئے اپنی ذات سے اوپر کام کرنا ہوگا ملک میں امن امان کو برقرار رکھنا معاشی ترقی کو فروغ دینا ہوگا ورنہ جس کے گھر میں دانے نہیں ہوں گا آپ اس کے مسیحا نہیں ہو سکتے اور آپ قومی رہنما بھی نہیں ہو سکتے ان سب کیلئے پوری قوم کی ویلفیئر پر بغیر کسی سیاسی منافرت کے کام کرنا ہوگا بھول جائیں کون کون ہے بس وہ پاکستانی ہے اور اس کا اتناہی حق ہے جتنا آپ کا اس کے ساتھ ساتھ قوم کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا انہیں بھی اپنے سیاسی رہنماؤںکی محبت میں ریاست اور ریاست کے اداروں کی عزت کا خیال رکھنا ہوگا اپنے اندر جمہوری اقدار پیدا کرنی ہوں گی، سوچنا ہوگا سننا ہوگا اور احترام راے کرنا ہوگا ایسے نہیں ہو سکتا کہ آپ قوم کے طور پہ رویہ نہ بدلیں اور توقع رکھیں کے سب ایسے ہی چلتا رہے گا ایسے ممکن نہیں ہے ہمیں جاپان کو اور اسکی ترقی کو دیکھنا ہو گا کہ ایٹم کی تباہی کے بعد وہ قوم کیسے بنی میں چین کی ترقی اور ریاست کے حکم کے پانبد بنگلہ دیش جیسے ہم بوجھ سمجھتے تھے پھر اس نے ثابت کیا کہ قوم کیسے بنتے ہیں ہمیں ماننا ہوگا ہم نے دنیا کی ائیر لائنز کھڑی کیں مگر اپنا بیڑا غرق کر لیا اور اب بیچتے پھرتے ہیں کوئی خریدار نہیں ملک بھر میں لوگ سٹیل کے
کاروبار سے وابستہ اور سٹیل مل برباد پڑی ہے ہمارے بابو اپنے اپنے ترقی کے زینے طے کرتے جا رہے ہیں۔ ملک کے ادارے تباہ برباد ہو رہے ہیں یہ سب مٹالیں ہم سب جانتے ہیں بس سوچتے نہیں سوچیں اور آگے بڑھیں کبھی وقت ہوتا تھا کہ پاکستان ٹی وی کا ڈرامہ دیکھنے کے لیے بھارت میں سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں اور ملک میں بھی کاروبار رک جاتے تھے پاکستانی فلم کئی کئی جوبلیا ں کرتی نظر آتی تھیں آج آپ کو اپنے ہی ٹی وی پہ انڈین فلمز دیکھنی پڑتی ہیں اور اپنی فلم انڈسٹری مولا جٹ وحشی جٹ کی نذر ہوگئی نہ کوئی یہ امن بنی نہ کوئی ہر رانجھا بنی نہ کوئی دل لگی بنی نہ ہی کسی قومی موضوع پہ کام کیا ،نہ قوم کو سبق آموز خدمت کی فحاشی عریانی اور قتل عام کی داستانوں کو پیش کرتے کرتے پوری انڈسٹری برباد کردی اور آج کل پرائیویٹ پروڈکشن میں جس طرح ڈرامے عشق کی فیکٹریاں اور عورت کا منفی رول پراجیکٹ کر رہی ہیں عورت جو ماں ہے بہن ہے بیٹی ہے اس کو قوم کی تربیت میں سب سے اہم کردار ہے مگر ہم نہ جانے کیا بنا کے پیش کر رہے ہیں اس کے علاوہ کس کس شعبے کی بات کی جائے ہر طرف بگاڑ ہے اس کو درست کرنے کے لیے درست سمت کا تعین کرنا ضروری ہے یہ بہت اہم ہے اور ذرائع ابلاغ کو اپنی ذمہ داریاں قوم کی تربیت میں ادا کرنی ہوں گی۔ کمرشل ازم کیساتھ قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہو گا یہ بہت اہم ہے ورنہ یاد رکھئے اللہ کا اپنا نظام ہے جیسے ہم ہوںں گے ویسے ہی ہمارے اعمال ہوں گے ویسا ہی نتیجہ نکلے گا ہمارے تعلیمی ادارے کمرشل ہو چکے ،معیار تعلیم صرف کمرشل تعلیم ہوگیا ہے۔ اخلاقیات ،اسلامیات اب موضوع نہیں رہا اور تربیت کا ذکر بھی نہیں ہوتا استاد کی عزت نہیں رہی ماں باپ کا احترام نہیں رہا،ہم سب کچھ آزادی کے نام پہ کھوتے جا رہے ہیں کم تولنا جرم نہیں رہا منافع خوری حرام نہیں رہی رشوت جرم نہیں رہی کمیشن کاروبار بن گیا تو پھر جرائم کیوں نہیں ہوں گے،ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور قومی ذمہ داریوں پر غور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہیے ہمیں آگے بڑھنا ہے انشاء اللہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے انشاء اللہ۔