ہفتہ‘  19  ذیقعد  1446ھ ‘  17 مئی 2025 ء

وزیراعظم مودی جی کچی آنکھوں مارے گئے۔
پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارتی سرکار نے نریندر مودی کی قیادت میں پہلے پاکستان پر الزامات لگائے، پھر دھمکیاں دیں۔ ان دھمکیوں کو عملی شکل دیتے ہوئے 7 مئی کو صبح ہونے سے پہلے پاکستان پر میزائلوں کی بارش کر دی گئی۔ اس روز پاکستان نے دفاعی اقدام کے تحت بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے، جن میں تین رافیل طیارے بھی شامل تھے۔10 مئی کو بھارت نے پاکستان کے کئی ایئربیسز کو نشانہ بنایا، تو پاک فضائیہ پلک جھپکتے بھارت پر جھپٹ پڑی اور اس کے کئی ایئربیسز کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا۔ مودی صاحب اب زخم چاٹ رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ کچی آنکھوں مارے گئے۔ جنگ لڑنے کا شوق تھا، لیکن تیاری نہیں تھی۔ان کی حالت دیکھ کر وہ مشہور کہانی یاد آتی ہے جس میں شیر اور گیدڑ کی دوستی ہوتی ہے۔ شیر ایک روز گیدڑ کو شکار پر لے جاتا ہے۔ شکار کے دوران ایک موقع پر شیر کو جنگلی گائے نظر آتی ہے۔ وہ اسے تاکنے لگتا ہے اور گیدڑ سے پوچھتا ہے: "میرے بال کھڑے ہو گئے ہیں؟"
گیدڑ کہتا ہے: "جی، بالکل!"
پھر وہ پوچھتا ہے: "میری دْم تَن گئی ہے؟"
گیدڑ فوراً کہتا ہے: "جی ہاں!"
پھر شیر پوچھتا ہے: "میری آنکھیں؟"
گیدڑ کہتا ہے: "جی، سرخ ہو چکی ہیں!"
یہ سن کر شیر گائے پر جھپٹتا ہے اور پل بھر میں اسے مار گراتا ہے۔ گیدڑ شیر کا بچا ہوا گوشت کھاتا ہے اور واپس اپنے گھر آ جاتا ہے۔
اگلے دن وہ بھی شکار کا شوق باندھتا ہے، اپنے باقی گیدڑ ساتھیوں کو اکٹھا کرتا ہے اور شیر والی پوری کہانی سناتا ہے۔ سب کو لے کر جنگل کی طرف نکلتا ہے، جہاں ایک بھینس چر رہی ہوتی ہے۔ گیدڑ اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں سے سوال کرتا ہے:
"میرے بال کھڑے ہو گئے ہیں؟"
گیدڑ جواب دیتے ہیں: "جی، بالکل!"
"میری دْم تن گئی ہے؟"
"جی، ہاں!"
"میری آنکھیں؟"
"جی جناب! بالکل سرخ ہو چکی ہیں!"
یہ سن کر گیدڑ بھینس پر جھپٹتا ہے، مگر بھینس اسے سینگوں میں اٹھا کر زور زور سے زمین پر پٹختی ہے اور اچھال کر دور پھینک دیتی ہے۔ سب گیدڑ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، اور آگے آگے وہی گیدڑ ہوتا ہے جس نے حملہ کیا تھا۔ خطرے سے نکل کر وہ پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے:
"میری آنکھیں تو ابھی سرخ ہی نہیں ہوئی تھیں، تم لوگوں نے پہلے ہی کہہ دیا! تم نے مجھے کچی آنکھوں مروا دیا!" یہی حال نریندر مودی مہاراج کا ہوا ہے۔ جنگ کا شوق تو بہت تھا، مگر آنکھیں ابھی سرخ نہیں ہوئی تھیں … اور مار کھا گئے۔
سٹیٹ بینک کی پین کے ساتھ کرنسی نوٹ پر کوئی بھی تحریر لکھنے کی پابندی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک بڑا اور "نوٹ نما" فیصلہ کیا ہے … اب نوٹوں پر پین سے کچھ بھی لکھا گیا تو وہ نوٹ یکم جولائی 2025 سے ناقابلِ قبول تصور ہوں گے۔ پہلی نظر میں یہ قدم خوش آئند ہے؛ آخر کرنسی نوٹ کوئی ڈائری، وال چاکنگ بورڈ یا آٹوگراف بک تو نہیں کہ جو دل میں آئے، لکھ دیا جائے۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بے چارے نوٹوں کا کیا ہو گا جو پہلے ہی "لکھے " جا چکے ہیں؟ جو لوگوں کی محبتوں، دھمکیوں، اشتہاروں، فون نمبروں اور یادداشتوں سے بھرے پڑے ہیں؟ کیا وہ نوٹ بھی کھوٹے کے زمرے میں آ جائیں گے؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر عام صارف انہیں کہاں لے کر جائے؟ کیا بینک ان کو آدھی قیمت پر واپس لے گا یا محض سر ہلا کر "معذرت"؟ یہ فیصلہ جہاں کرنسی کی خوبصورتی بحال کرنے کا نیک ارادہ رکھتا ہے، وہیں عوامی سطح پر کچھ سوالات بھی جنم دیتا ہے۔ وہ لوگ جو نوٹ پر اپنا نام، فون نمبر، یا "دل کی باتیں" لکھنے کو قومی خدمت سمجھتے ہیں، وہ اب کیا کریں گے؟ کیا اسٹیٹ بینک کی یہ خواہش ہے کہ اب لوگ پین کی جگہ پرنٹر یا موبائل ایپ سے QR کوڈ چھاپ کر نوٹ کے ساتھ لگا دیا کریں؟یقیناً نوٹوں پر "پیار بھری شاعری"، "لالہ ، بھائی زندہ باد"، "فون کریں، تعویذ حاصل کریں"، "فقط تمھارا، " جیسے نایاب کلمات تحریر کرنے والے حضرات کو اب دیواروں، درختوں، اور پرانی کاپیوں کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ دیوار پر یا نوٹ پر نام لکھنے سے کوئی مرزا غالب نہیں بن جاتا — ہاں، بدنامی ضرور کمائی جا سکتی ہے۔اور یہ بھی تو سوچیے کہ اکثر لوگ یہ حرکتیں لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔ بچوں کو چاکلیٹ دلوانے کے لیے دئیے گئے 50 روپے کے نوٹ پر "امی سے پوچھ لینا" لکھ کر دینا شاید گھر کے اندر تو قابلِ قبول ہو، لیکن بازار میں یہ نوٹ صرف تماشا بن کر رہ جائے گا۔الغرض، فیصلہ درست ضرور ہے، مگر اس کے اطلاق سے پہلے عوامی آگاہی مہم اور پرانے نوٹوں کے لیے واضح پالیسی بہت ضروری ہے۔ ورنہ لوگ نوٹ نہیں، نوٹنکیاں کرتے نظر آئیں گے۔ہماری درخواست بس اتنی ہے کہ جو دل کی بات کہنا ہو، نوٹ پر نہیں، نوٹ بک پر لکھیں — اور اگر وہ بھی نہ ہو، تو موبائل کا نوٹس ایپ حاضر ہے۔ کیونکہ کرنسی قومی شناخت ہے، نہ کہ ذاتی "سوانح حیات"۔
بجٹ 2 جون کو پیش کیا جائے گا، تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا امکان۔
تنخواہ دار طبقہ بجٹ کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ سے یہ بیان منسوب کیا گیا کہ حکومت بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں و مراعات میں اضافے پر غور نہیں کر رہی۔ اس بیان پر کہرام مچ گیا۔ اسکے بعد وزیر خزانہ نے وضاحت کر دی تو ملازمین کسی حد تک مطمئن ہوئے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ گریڈ 17 تک کے ملازمین کی تنخواہ میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ اتنا اضافہ بھی، جتنی مہنگائی ہو گئی ہے، ملازمین "بھاگتے چور کی لنگوٹی" سمجھ کر ہی قبول کریں گے۔ویسے ہمارے ہاں کہیں کہیں ایسی سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ ہماری آمدن ڈالروں میں ہو اور اخراجات روپوں میں۔ سرکاری ملازمین ہی کیا، عام آدمی بھی اس بجٹ میں اپنے لیے ایسا ہی ریلیف چاہتا ہے جیسا پارلیمنٹیرینز کو ان کی مراعات اور تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کر کے دیا گیا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کسی دور میں سالانہ بجٹ میں متعین کی جاتی تھیں، سال بھر کے لیے۔ اب ہر 15 روز بعد مقرر کی جاتی ہیں۔ بجٹ کے دیگر معاملات بھی کہیں ماہانہ اور پندرھویں تاریخ کے شیڈول پر نہ آ جائیں۔بہرحال، عوام کو اپنی حکومت سے امید ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے گی۔ لیکن ساتھ ہی آئی ایم ایف کا چہرہ بھی سامنے آ جاتا ہے، جس کی مشاورت سے بجٹ ترتیب دیا جانا ہے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ عوام کو ٹیکس کے نام پر جتنا نچوڑا جا سکتا ہے، نچوڑ لیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ بجٹ کے سلسلے میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آن لائن تکنیکی بات چیت جاری ہے۔ پالیسی امور پر مذاکرات 19 مئی سے شروع ہوں گے اور 23 مئی تک جاری رہیں گے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال میں ملک کی مجموعی آمدن 200 کھرب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اخراجات پر کڑی نگرانی ضروری ہوگی۔آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ معیشت کی شرحِ نمو 3.6 فیصد اور مہنگائی کی شرح 7.7 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 190 کھرب 900 ارب روپے آمدن کا ہدف مقرر کیا ہے، جس میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں اور زرعی آمدن پر ٹیکس اہم کردار ادا کریں گے۔
عوامی مشکلات اسی ایک محکمے سے شروع ہوتی ہیں۔ اس محکمے میں شفافیت آ جائے، جتنا ٹیکس کسی کا بنتا ہے، اتنا وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرا دیا جائے، اور اپنی جیب میں صرف تنخواہ جائے، تو پاکستان کے نہ صرف سارے قرضے اتر جائیں بلکہ پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منزل بھی حاصل کر لے۔ہے کوئی مردِ میدان جو ایف بی آر والوں کا قبلہ درست کر دے؟

ای پیپر دی نیشن

اسرائیلی بربادی کا نقطہ آغاز

امتیاز حسین کاظمیimtiazkazmi@gmail.com13جون2025 کی صبح اسرائیل کی جانب سے ایران میں درجنوں مقامات پر حملے کر کے فوجی اہداف اور اہم شخصیات ...