جنگ بندی یا بھارتی حمایت؟

جب امریکہ دنیا کے سامنے پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’ غیر جانبداری ‘‘ کی بات کرتا ہے ، تو یہ محض ایک سفارتی اور نمائشی پردہ ہوتا ہے ، ایسا پردہ جس کے پیچھے امریکہ کی گہری حکمت عملی  پر مبنی چالیں اور معاشی مفادات چھپے ہوتے ہیں ، در حقیقت امریکہ نہ صرف بھارت کی عسکری صلاحیتوں کو  فروغ دے رہا ہے ، بلکہ جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن مکمل طور پر بھارت کے حق میں جھکانے کی خفیہ پالیسی پر عمل پیرا ء ہے ۔
بھارت اس وقت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے جس نے فرانس سے رافیل طیارے ، روس سے S-400 میزائل سسٹم اور اسرائیل سے ڈرونز اور سائبر ٹیکنالوجی حاصل کی ہوئی ہے ، بھارت کی دفاعی مارکیٹ میں دنیا کے بڑے کھلاڑی موجود ہیں ، ایسے میں امریکہ جو کہ خود دنیا کی سب سے بڑی دفاعی مصنوعات تیار کرنے والی طاقت ہے ، وہ کیسے پیچھے رہ سکتا ہے ؟ پینٹا گون  اور امریکی کانگریس نے حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ اربوں ڈالرز کے دفاعی معاہدے کئے ہیں ، جن میں F- 21جنگی طیارے MQ-9B ڈرونز اور جدید ترین میزائل سسٹم شامل ہیں ، امریکی کمپنی(  Raytheon, Lockheed Martin  )اور( Boeing  ) کی اعلیٰ سطحی ٹیمیں مستقل طور پر نئی دہلی کا رخ کر رہی ہیں ، مقصد  یہ ہے کہ بھارت کو روسی اور فرانسیسی دفاعی انحصار سے نکال کر امریکی اسلحہ کی طرف راغب کیا جائے ۔
 امریکہ ، جاپان ، آسٹریلیا  اور بھارت پر مشتمل  ’’QUAD  ‘‘ اتحاددراصل چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے خلاف ایک حکمت عملی پر مبنی شراکت داری ہے ،مگر اس شراکت داری میں بھارت کی شمولیت کا ایک واضح پہلو بھی ہے ، کہ بھارت کو عسکری لحاظ سے اس قدر مضبوط کر دیا جائے کہ وہ نہ صرف چین بلکہ پاکستان پر بھی دبائو ڈال سکے ، حال ہی میں بحرہند میں ہونے والی  امریکی اور بھارتی افواج کی مشترکہ مشقوں مالا بار (Malabar  )میں آپریشنز کی ایسی تربیت کی جو صرف اتحادی ممالک  کے درمیان ممکن ہوتی ہیں ، ان مشقوں کا اصل مقصد بحر ہند میں امریکی بحری غلبہ قائم رکھنا اور چین کے ممکنہ اثر کو کمزور کرنا ہے ، جب کہ بھارت کو اس غلبے کا فرنٹ لائن شراکت دار بنانا بھی مقصود ہے ۔امریکہ خطے میں بھارت کو اپنا دفاعی اور اسٹریٹجک پارٹنر سمجھتا ہے ، 2005  ء سے امریکہ نے بھارت کو نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی ، خلائی تحقیق میں تعاون اور سائبر سیکورٹی میں پار ٹنر شپ جیسی کئی مراعات دی ہیں ، جو کسی اور جنوبی ایشیائی ملک کو حا صل نہیںہوئیں ، یہ سب کچھ صرف اس لئے کہ بھارت کو چین کے خلاف ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جاسکے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں بالادست بنانا بھی اس پالیسی کا پوشیدہ پہلو ہے ۔
امریکہ پاکستان کو کبھی (FATF )کی گرے لسٹ ، کبھی IMF کی کڑی شرائط اور کبھی دہشت گردی کے خلاف ناکافی اقدامات کے الزامات کی صورت میں دبائو میں رکھتا  ہے ، مقصد یہ کہ پاکستان سفارتی محاذپربھارت کا سامنا مئوثر انداز میں نہ کر سکے ، امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان دفاعی میدان میں بھارت سے پیچھے رہے ، تاکہ جنوبی ایشیا ء میں صرف بھارت ایک بالا دست قوت کے طور پر ابھرے ، پاکستان کو F-16  طیاروں کے پرزے فراہم کرنے میں تاخیر ، ڈرون ٹیکنالوجی تک رسائی نہ دینا اور دفاعی معاہدوں میں روائتی پابندیا ں لگانا اس پالیسی کا عملی اظہار ہے ، اس کے بر عکس بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات کو نہ صرف فروغ دیا جا رہا ہے بلکہ اس پر عائد ماضی کی بیشتر پابندیاں بھی ختم کی جا چکی ہیں ۔
سی پیک صرف پاکستان کا نہیں بلکہ چین کا بھی اسٹر یٹجک منصوبہ ہے ، امریکہ نے نہ  صرف اس کی مخالفت کی بلکہ بھارت کو بھی اس کے خلاف استعمال کیا ، خفیہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق امریکی سفارت خانے اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ’’ را ‘‘ کے درمیان رابطوں کے کئی شواہد موجود ہیں جن کا مقصد گوادر پورٹ کو غیر مستحکم کرنا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی در پردہ حو صلہ افزائی تھا، بلوچ علیحد گی پسند گروہوں کی سر گرمیاں جنہیں بیرونی فنڈنگ ملنے کے شواہد بھی سامنے آئے صرف اندرونی بد امنی نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت کی پراکسی وار کا حصہ ہیں ، گوادر میں چینی انجینئرز پر حملے ، سی پیک تنصیبات کو نشانہ بنانا اور سوشل میڈیا پر سی پیک مخالف پروپیگنڈا  یہ سب درحقیقت ایک عالمی منصوبے کا حصہ ہے ، جس کے پیچھے امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ کار فرما ہے ۔
 ’’ سی آئی اے ‘‘  اور ’’ را  ‘‘ کے درمیان حالیہ برسوں میں بڑھتا ہوا تعاون پاکستان کے لئے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے ، امریکی ٹیکنالوجی اور سیٹلائٹ ڈیٹا بھارت کو فراہم کیا جا رہا ہے  تاکہ وہ نہ صرف پاکستان کی سرحدی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت  بلتستان میں بھی اپنی حکمت عملی ترتیب دے سکے ، یہ تعاون صرف نگرانی تک محدود نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف معلومات کی شراکت داری ، دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت کی مشترکہ ٹریکنگ اور سائبر حملوں کے لئے کوارڈینیشن بھی شامل ہے ، اس سے پاکستان کی قومی سلامتی کو براہ راست خطرہ لا حق ہو رہا ہے۔امریکہ کی نام نہاد غیر جانبداری دراصل ایک گہری جانبداری ہے ، وہ ایک طرف بھارت کو عسکری ، معاشی اور سفارتی لحاظ سے مضبوط کر رہا ہے ، دوسری طرف پاکستان کو عالمی اداروں کے ذریعے محدود کر رہا ہے ، ایسی صورتحال میں پاکستان کو اپنی سفارتکا ری کو جارحانہ بنانا ہوگا ، متبادل عالمی اتحادی تلاش کرنا ہوں گے ، اور قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر عالمی سطح پر اپنی پوزیشن واضح کرنی ہو گی ۔
حالیہ پاک بھارت جنگ بندی کے پس پردہ عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ یہ جنگ بندی خطے کے امن کے لئے نہیں بلکہ بھارت کی حمایت میں کرائی گئی ہے، کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ بھارت کی عسکری کمزوری اور اتحادیوں کی دفاعی ناکامی امریکہ کے مستقبل کے اسلحہ سودوں پر منفی اثر نہ ڈالے ، امریکہ نے جنگ بندی نہیں بلکہ جنگ کو اپنے مفاد میں ’’ ریسکیو ‘‘ کرلیا ،امریکہ ہمیشہ ایسے وقت میں ثالثی کرتا ہے جب اس کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو نہ کہ صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر، ہمیں اقوام عالم کو باور کرانا ہو گا کہ جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن کیسے ایک سازش کے تحت بگاڑا جا رہا ہے ، ورنہ پاکستان کی سا  لمیت  اور خود مختاری کے لئے خطرات جنم لے سکتے ہیں ۔  
  
  

ای پیپر دی نیشن