آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

یہ حقیقت تو اَظہَر مِن الشمس ٹھہری کہ ہماری شاہانہ مزاج اشرافیہ جمہوری روایات کے فروغ و احیاء اور ووٹ کو تقدس دینے کے معاملے میں خاصی کنجوس  رہی ہے۔ شجرِ جمہوریت کی مناسب نگہبانی نہ ہونے کی وجہ سے ہم اِس کی دور دور تک پھیلی جڑیں، مضبوط تنا اور ہرے بھرے سایہ دار برگ و بار دیکھنے اور اِس کے ثمرقند کا فرحت بخش ذائقہ چکھنے پر بہت کم عرصہ ہی قادر ہو سکے۔ دوسری طرف ہمارے ساتھ ہی آزاد ہونے والے بھارت میں شروع دن سے ہی جمہوریت کی گاڑی تسلسل کے ساتھ محوِ سفر رہی۔ نہیں معلوم کہ وہاں کی ’جنتا‘ انہارِ جمہوریت سے بہنے والے خالص مشروبات کے نِشاط انگیز ذائقوں سے کس حد تک مستفید ہوتی رہی ہے! یہ بھی نہیں پتہ کہ کاتبِ تقدیر جمہوری فیوض و برکات ہماری قسمت میں کم کم کیوں لکھتا رہا یے؟ پھر بھی مقامِ شکر ہے کہ اِس وقت ارضِ وطن میں، جیسی بھی سہی، جمہوریت ہی رائج ہے۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ سافٹ کِل، الیکٹرانک وار فیئر، سپیکٹرم وارفیئر آپریشز، سائبر اور سپیس ڈومینز اور سٹینڈ آف ویپنز جیسی نئی نکور اصطلاحات کا استعمال عمل میں لاتے ہوئے آپریشن سندور اور آپریشن بنیان مرصوص پر مشتمل حالیہ پاک بھارت جنگ دو جمہوری ممالک کے درمیان وقوع پذیر ہوئی ہے۔ 
یہ حقیقت بھی الم نشرح ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے شارٹ آرڈر پر عمل کرتے ہوئے پاک بھارت کے درمیان سیز فائر ہوا ہے۔ بین الاقوامی مستند اور غیر جانبدار میڈیا کے تحقیقاتی تجزیوں اور بے لاگ تبصروں کے مطابق اس جنگ سے بھارت کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بلوم برگ کے مطابق اگر تنازع طویل ہوتا تو بھارت کو کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ موجودہ جنگ کے اسباب، واقعات اور نتائج برصغیر کے ہر باشندے کے ذہن میں واضح  ہو چکے ہیں۔ جمہوریت پر کامل یقین رکھنے والے توقع کر رہے تھے کہ جب بہت بڑی تیاری کے بعد حملہ کرنے کا نتیجہ اس سے بھی بڑی اور بْری شکست اور بدنامی کی صورت میں برآمد ہوا ہے تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے ایک آدھ استعفیٰ تو ضرور آئے گا۔ لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو بھارتی جمہوریت پر ایک سوالیہ نشان لگا نظر آیا۔ جب مودی جی نے بھارتی قوم سے خطاب کیا تو بہت سوں کا بھارتی جمہوریت پر سرے سے ایمان ہی اٹھ گیا۔ اْن کا ’تاریخی خطاب‘ سن کر برہمن اچاریہ چانکیہ اور جرمن جوزف گوئبلز عالم ارواح میں بغل گیر ہو کر کہہ رہے ہوں گے، ’’مودی جی تو استادوں کے بھی استاد نکلے…۔ شدید یزیمت میں سے بھی اپنے لئے تعریفی و تکریمی کلمات اور شکست میں سے فاتحانہ نکات ڈھونڈنا تو کوئی اْن سے سیکھے!‘‘ ویسے دروغ گوئی کی کوئی حد تو متعین ہونی چاہیے۔ مودی جی کی تقریر پر اِس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ’’رسی جل گئی، بل نہ گیا، کھسیانی بلی کھمبا نوچے اور کَیا پِدی کیا پِدی کا شوربا۔‘‘ 
ہمارے وزیراعظم نے بھی پسرور چھاونی میں افسروں اور جوانوں سے خطاب کیا اور اپنے بھارتی ہم منصب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’آگ لگانے کے بجائے آگے بڑھنے کی بات کریں۔ ہم امن اور جنگ دونوں کے لئے تیار ہیں۔ مودی! ہمیں بھاشن مت دو۔ ہم نے حساب چکتا کر دیا۔ 1971ء کی جنگ کا بدلہ اس جنگ میں لے لیا۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ کس طرح چند گھنٹوں میں پاکستان کے محافظوں نے بھارتی جارحیت کو خاک میں ملایا۔ اگر انڈیا نے دوبارہ جارحیت کی تو ایسا جواب دیں گے کہ سوچا بھی نہیں ہوگا۔‘‘  ہمارے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں قوم کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی جس پر قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ یقینی طور پر اِس شارٹ ٹرم جنگ میں ہماری فوج نے پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی کامیابی و کامرانی کا لوہا منوایا ہے۔ اِس فتح پر قوم کی آنکھوں نے خوشی کے آنسو لانے اور کشادہ جبینوں نے اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ بلا شبہ اس کو ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر ہر فورم پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ جنگ کوئی آخری جنگ نہیں ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر موجود ہے اور بھارت میں مودی جیسے تنگ نظر اور انتہا پسند بھارتی سیاستدان کا غلبہ ہے‘ پاکستان اور بھارت کبھی امن سے نہیں رہ سکیں گے۔ ہمیں دوستوں اور دشمنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے ہر لمحہ تیار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر عسکری اور سفارتی لحاظ سے ہماری اڑان یہی رہی اور ہم اپنے داخلی اور معاشی حالات بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کے وقار اور دوستوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔ ہمیں سنجیدگی سے اسرائیل کے موجودہ کردار کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے پاکستان کو اپنا دشمن چنا ہے جبکہ چین، ترکی اور آزربائیجان نے کھلم کھلا پاکستان کو دوست مانا ہے۔ پاکستان کو یہ کامیابی ایسے وقت میں نصیب ہوئی ہے جب ملک میں جمہوریت ہے اور موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوری روایات کے مطابق پروفیشنلزم کا مظاہرہ کریں، سیاسی ڈھانچے کو مضبوط بنائیں، سازشوں کے دروازوں پر قفل لگائیں اور کمزوریوں کی اوورلالنگ کریں تاکہ فوج تمام تر توجہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے پر مرکوز کر سکے اور اپنی کارکردگی میں مزید نکھار لا سکے۔ 
کامیابی کی صورت میں دنیا کی سوچ کس قدر تیزی سے بدلتی ہے، یہ ہم نے خوشگوار حیرت سے عملی طور پر دیکھ لیا ہے۔ جو ہتھیار ہماری فورسز نے استعمال کئے، عالمی مالیاتی نظام میں ان ہتھیاروں کے حصص کی قدر و قیمت اچانک بڑھ گئی اور جو ہمارے دشمن نے استعمال کئے، انکے حصص کی قدر و قیمت میں کمی آ گئی۔ چینی عسکری ٹیکنالوجی خم ٹھوک کر مغربی ٹیکنالوجی کا منہ چڑانے لگی۔ جنرل جی ڈی بخشی اور میجر گورو آریا جیسے ’بڑبولے‘ لوگوں کی آٹو ٹیوننگ ہو گئی اور اعتدال پسند لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے سنا جانے لگا۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن وجے شاہ کے بھارتی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق متنازعہ بیان کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر کے اعلان کی گونج تھمتے ہی چین نے اروناچل پردیش کے 27 مقامات کے نام چینی زبان میں تبدیل کرکے بوکھلاہٹ کی شکار مودی سرکار کو مزید بوکھلانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ٹرمپ نے ایپل کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک کو اپنی پراڈکٹس بھارت میں تیار نہ کرنے کی صلاح دے دی ہے۔ روس غیر جانبدار ہو گیا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!!

ای پیپر دی نیشن