جمعۃ المبارک ‘  18  ذیقعد  1446ھ ‘  16 مئی 2025 ء

مودی میں آنجہانی شاستری جتنی حمیت بھی موجود نہیں۔
بھارت کے آنجہانی وزیراعظم شاستری قدرے کمزور ڈیل ڈول کے انسان تھے۔ قد کاٹھ میں بھی چھوٹے تھے‘ مگر کم از کم ان میں غیرت ضرور تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تاشقند میں پاکستان کے مقابلے میں ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح معاہدے کا صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ وہیں سے پرلوک سدھار گئے۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ’’غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں‘‘ اسکے برعکس جنگلی گوریلے کی طرح چھاتی پیٹ پیٹ کر خود کو ہنومان سمجھنے والا نریندر مودی تو نہایت ڈھیٹ نکلا۔ اگر ان میں ذرا سی بھی غیرت یا حمیت ہوتی تو وہ اب تک وارنسی کے مہاکنڈ کالی کیشمشان گھاٹ میں کب کے آتما سمرپن کر چکے ہوتے۔ مگر وہ تو الٹا اپنی ہار کو جیت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور پاکستان کو بھرپور نقصان پہنچانے کے گودی میڈیا کے بیانات کو سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک بڑے نیشنلسٹ مذہبی و سیاسی رہنما تھے۔ انکے والد نے اپنے مخالف فرقے کے خلاف ایک شعر کہا تھا۔ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اس وقت وہ نریندر مودی پر صادق آتا ہے کہ؛
مودی بے حیا جھوٹا ہے یارو
تڑاتڑ جوتیاں تم ان کو مارو
اب واقعی لگتا ہے مودی کی دماغی حالت بہتر بنانے کیلئے یہی طریقہ علاج مناسب ہے۔ امید ہے پاکستان نے چار روز میں مودی سرکار کا جو شافی کافی علاج کیا ہے‘ اس سے ان کو افاقہ ہوگیا ہوگا۔ اگر اسکے باوجود انکے دماغ کا خناس نہیں نکلا تو پھر اب ایک مرتبہ دو دو ہاتھ کرکے دیکھ لے‘ ہمارے فوجی جوان تو پہلے ہی کہہ رے ہیں کہ اب ملکہ ترنم تو موجود نہیں‘ نصیبولعل کی زبان میں ہی سہی۔
اے وطن کے جوشیلے جوانوں
مودی دی منجی تھلے ڈانگ پھیر دیو
کہنے کیلئے بے تاب ہیں تاکہ جو ’’سپ کڈھنے نیں‘ کڈھ لین۔ 
پارٹی رہنمائوں کی توہین پر شوذب کنول نے علیمہ خان کی خوب کلاس لی۔ 
پی ٹی آئی میں جاری اختیارات کی جنگ اب اڈیالہ جیل سے باہر نکل آئی ہے۔ پی ٹی آئی کے خواتین ونگ کی صدر شوذب کنول غیرپارٹی رہنماء کی طرف سے پارٹی عہدیداروں کی بے عزتی پر خاموش نہ رہ سکیں اور علیمہ خان پر برس پڑیں کہ یا تو وہ براہ راست آکر سیاست کریں ورنہ پارٹی کو تباہ نہ کریں۔ یہ لب و لہجہ پارٹی کے بانی انکی بیگم اور بہنوں کیلئے نیا اورناقابل برداشت ہوگا جو جب چاہتے ہیں جس کی چاہتے ہیں‘ لے دے کر دیتے ہیں۔ شوذب کنول نے پارٹی چیئرمین گوہر خاں کو منشی کہنے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم خود اپنے پارٹی عہدیداروں کی عزت نہیں کرینگے تو کون کریگا۔ ایسا دبنگ لہجہ تو پاکستان کی شاید ہی کسی سیاسی جماعت میں برداشت کرنے کی کوئی روایت ہو۔ پی ٹی آئی میں تو بالکل ہی نہیں‘ اسی طرز بیان کی وجہ سے وہاں سے کوچ کرنے والوں کی ایک طویل فہرست سامنے ہے۔ علیمہ‘ عظمیٰ اور حلیمہ خان سسٹرز کی وجہ سے ہی نہیں بشریٰ بیگم کے فیصلوں کی وجہ سے بھی لگتا ہے پی ٹی آئی اب ایک موروثی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ جہاں خاندانی تعلقات کی بنیاد پر فیصلے ہو رہے ہیں۔یعنی اب پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (نون) اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ یعنی؛
دْکی پہ دْکی ہو یا ستے پہ ستا‘ 
کوئی فرق نہیں ہم سب کا
مگر یاد رہے اگر قاسم اور سلمان نے پاکستان آنے اور سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو کیا ہوگا۔ شاید بانی بھی پی ٹی آئی کو گھریلو جماعت بننے سے نہ روک پائیں گے۔ 
ٹرمپ کا دورہ مشرق وسطیٰ امن کا سفر یا اسرائیل کو تسلیم کرانے کی سازش۔ 
خدا کرے امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ عرب ممالک کے اچھے اثرات بھی جلد سامنے آئیں اور مشرق وسطیٰ کا سب سے قدیم اور بڑا مسئلہ فلسطین بھی حتمی حل کی طرف بڑھے۔ یہ مسئلہ حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہے جو فلسطینیوں کو ہر قیمت پر اپنا دست نگر رکھنا چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو ریاستی منصوبے کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ مگر اسرائیل زبردستی فلسطین کے زرعی رقبے کو مسلسل غصب کر رہا ہے‘ وہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودیوں کو آباد کر رہا ہے … غزہ کے نیم خودمختار علاقے کو بھی اس نے تباہ و برباد کرکے ایک ویران کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے‘ ہزاروں شہید ہوئے‘ ہزاروں معذور ہوئے۔ غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہیں‘ نہ ہی ادویات میسر ہیں۔ اسرائیل نے محاصرہ کرکے تمام راستے بند کر دیئے ہیں تاکہ فلسطینی وہاں سے نکل جائیں‘ ان حالات میں امن کی کنجی صرف امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ عرب ممالک کے ساتھ واقعی باہمی امن و احترام اور دوستی کا رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے اسرائیل کو پٹہ ڈالنا ہوگا۔ فلسطینیوں کی ریاست اور خودمختاری کا احترام کرنا ہوگا‘ القدس شریف پر فلسطینیوں کا حق تسلیم کرکے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ عرب ممالک بھی اس سے کم کسی اور بات پر راضی نہیں ہونگے۔ اس وقت صدر ٹرمپ پر امن اور اصلاح کی دیوی کی روح سوار ہے‘ دیکھتے ہیں وہ اپنے پالتو غنڈے کے حوالے سے کتنی نرمی دکھاتے ہیں۔ جو حقیقت میں لاتوں کا بھوت ہے‘ باتوں سے ماننے والا ہرگز نہیں۔ امریکہ اور عربوں میں یہی ایک راہ ہے جس پر چل کر وہ مستقبل میں شراکت داری کی راہ ہموار کر سکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کا قیام ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اسکے بنا سب کہانیاں بے معنی ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ عرب ممالک کس طرح ٹرمپ کو اس راہ پرلاتے ہیں۔ 
چینی کی قیمت کم کی جائے‘ اسحاق ڈار نے حکم دیدیا۔
اس بار گندم کی بھرپور پیداوار کے باوجود مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کنٹرول نہیں ہو رہی‘ روٹی کی قیمت ابھی تک تمام تر حکومتی اعلانات کے باوجود کم نہیں ہو پائی تو ایسے میں ڈپٹی وزیراعظم کے اس نئے اعلان یا ہدایت پر کون عمل کریگا کہ چینی کی قیمت میں فوری کمی کی جائے۔ کیونکہ اللہ کے کرم سے اس بار گنے کی پیداوار بھی بھرپور رہی ہے۔ مگر جب تک گندم اور گنے کی خریداری کرنے والی فلور اور شوگر ملز کی اجارہ داری برقرار رہے گی‘ مناپلی قائم رہے گی تب تک آٹا اور چینی کی طلب و رسد کو یہی مہنگائی مافیا کنٹرول کرتا رہے گا۔ تو نہ آٹے کی نہ ہی چینی کی بازار میں قیمت کم ہوگی۔ صرف دل سوز اپیل کرنے سے فلور اور شوگر ملز مالکان کے دل نہ پہلے نرم ہوئے تھے‘ نہ اب ہونگے۔ انہیں بھرپور منافع کمانے کی عادت پڑ چکی ہے۔ وہ بازار تک میں قیمتیں خود جاری کرتے ہیں تو حکومت کا کام صرف اعلان کرنا ہی رہ گیا ہے۔ یہ مافیا حکومتی اقدامات کے ثمرات عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ انہیں ذرا ہاتھ لگائیں تو یہ نہایت چالاکی سے ایسا ڈرامہ کرتے ہیں کہ بازار سے آٹا اور چینی گدھے کے سر کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتی ہے۔ مصنوعی گرانی اشیاء شارٹ ہونے کی قسط وار ڈرامہ سیریل ایسی چلاتے ہیں کہ عوام بھی کچھ سوچنے سمجھنے سے محروم ہو کر انکی باتوں میں آجاتے ہیں۔ حکومت تو پہلے ہی انکی جیب میں ہے۔ خدا کرے اب ایسانہ ہو اورچینی آٹے کی قیمت کم ہو

ای پیپر دی نیشن

اسرائیلی بربادی کا نقطہ آغاز

امتیاز حسین کاظمیimtiazkazmi@gmail.com13جون2025 کی صبح اسرائیل کی جانب سے ایران میں درجنوں مقامات پر حملے کر کے فوجی اہداف اور اہم شخصیات ...