موبائل فونز کمپنیوں کی لوٹ مار 

گلزار ملک

  میرے بہت سارے دوستوں نے مجھے کئی مرتبہ کہا کہ ایک کالم موبائل فونز کمپنیوں کی لوٹ مار اور زیادتیوں کے بارے میں ضرور لکھیں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسرے سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر کا تو ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہیں جبکہ ان موبائل فون کمپنیوں کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہوتا یہ لوگ کہاں بیٹھے ہیں اور کس جگہ جا کر ان کے خلاف درخواست دیں بہت سارے صارفین اس وجہ سے بھی ان موبائل کمپنیوں کے ظلم کا شکار ہوتے رہتے ہیں ہم خود بھی ان موبائل فون کمپنیوں کے زبردست ستائے ہوئے 
 یہ موبائل فون ایک ایسی چیز ہے جو استعمال کرنے والوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہے اور اس کی خرید و فروخت کرنے والے دکانداروں کے لیے بہت بڑی کمائی کا ذریعہ ہے۔ لاہور کی معروف مارکیٹ ہال روڈ جہاں پر کسی زمانے میں ریڈیو ٹی وی اور اس کے پارٹس کے حوالے سے دکانیں ہوتی تھیں اور اب یہ سارا ہال روڈ مارکیٹ موبائل کے حوالے سے ہی جانا پہچانا جاتا ہے اور یہ تاجر حضرات اس کاروبار میں بہت بڑے سرمایہ دار بن گئے ہیں۔ موبائل فون کاروبار کے لحاظ سے ہال روڈ کی اس مارکیٹ کے علاوہ حفیظ سینٹر اور لاہور شہر کی مختلف مارکیٹوں بازاروں میں لاکھوں کی تعداد میں موبائل فونز کا کاروبار ہوتا ہے۔ ان تمام مارکیٹوں میں چائنہ چھایا ہوا ہے۔ یقین جانیں اس کے علاوہ بھی یہ موبائل فونز کمپنیاں مزید دیگر اور کئی طریقوں سے صارفین فونز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
 اور اب آجائیں ان موبائل کمپنیوں کے پیکجز کے حوالے سے جن کی قیمتیں گزشتہ دو سال سے اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ صارفین فونز پتہ نہیں کس طرح اپنا نظام چلا رہے ہیں ہر مہینے فون کال پیکجز اور نیٹ کے پیکجز میں اضافہ کر دیا جاتا ہے. یہاں پر ذرا غور کریں ان موبائل کمپنیوں کی اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے سرمایہ داروں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کا نقصان ان چھوٹے طبقہ کے لوگوں کو ضرور ہوتا ہے جنہیں ان پیکجز کو کرنے کے لیے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان لوگوں کو بہت فرق پڑتا ہے یاد رہے کہ یہ لوگ تو اس وقت پہلے ہی ضروریات زندگی کی اشیاء کی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں. اور نہ جانے اپنی زندگی کے نظام کو کیسے چلا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ان لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے بجائے اس کے کہ ان کو کوئی فائدہ دیا جاتا اور نہ تو حکومت اس طرف کوئی توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی موبائل کمپنیاں والوں کو ان پر ترس آتا ہے کم از کم حکومت کو چاہیے کہ چلیں اور کچھ نہیں تو اس موبائل کمپنیوں کے ظلم کو بند کروائیں اور پیکجز کو سستا کریں تاکہ ان لوگوں کو بھی کوئی ریلیف مل سکے۔
 اس سلسلہ میں شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ان کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کریں ان کی قیمتوں کو کنٹرول کریں اور صارفین کو معیاری خدمات فراہم کرنے کا پابند بنائیں۔ عوامی ردعمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر ان کمپنیوں نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہ کی تو ان کا بائیکاٹ وسیع پیمانے پر ہو سکتا ہے۔کیونکہ ان موبائل فون کمپنیوں کے ظلم سے اب لوگ نکو نک ہو چکے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن