پاک فوج کی ساکھ 

ملک کے ہر ادارے کی جانچ کا اصل معیار اسکی پیشہ وارانہ کارکردگی سے ہوتا ہے۔ مئی کا مہینہ پاکستان اور بھارت کی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ ایسا کم ظرف دشمن جو اپنی انا کے خول میں قید ہے۔ جو پاکستان کو نیچا دکھانے اور کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ بھارت نے پہلگام پر بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام لگایا۔ بھونڈے الزام کی پاداش میں 1960 میں سندھ طاس معاہدے کو ختم کر دیا۔ جس میں طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی عیاں تھی۔  پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدے میں کوئی ایک فریق یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن بھارت نے سوا ارب کی آبادی اور تعداد میں بڑی فوج ، پاکستان دشمن عالمی قوتوں, دنیا سے تجارتی اور سفارتی تعلقات کے نشے میں دھت پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کا پاکستان پر لگا کر اپنی عوام اور دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ جھوٹ پر پاکستان کو بد نام کرنے کی عمارت کھڑی کی۔ جسے بنیاد بنا کر پاکستان کی سویلین ابادی پر حملہ کر کے جنگ کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا۔ اس ریاستی غنڈہ گردی اسرائیل ، امریکہ،فرانس اور روس نے اس کی پشت پناہی کی۔ نادان دشمن سمجھ بیٹھا تھا کہ پاک فوج میں وہ دم خم نہیں رہا۔ لیکن پاک فوج نے جوابی کاروائی میں جس جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے بھارت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کو منہ کی کھانا پڑی۔  جس کی سب سے بڑی وجہ جذبہ شہادت ہے۔ پاک فوج کو جذبہ شہادت نے وہ حوصلہ عطا کیا جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہرا سکتی۔بھارت کی جنگی تنصیبات کو جس طرح پاک فوج اور فضائیہ نے تباہ کیا۔ دنیا ، بھارت کے حکمران اور بھارتی عوام ششدر رہ گئے۔ پاک فوج کی دنیا میں ساکھ بحال اور رعب و دبدبہ غالب آگیا۔ ان نا عاقبت اندیش  اندورنی سیاسی عناصر کا بیانیہ بھی دفن ہو گیا جو سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج کو بدنام کر رہے تھے۔  میرا ماننا یہ ہے کہ جب ملک کے کسی ادارے میں کرپشن کے شواہد سامنے آ جائیں۔ اس ادارے کو ختم کرنا یا دنیا میں بدنام کرنا کوئی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ بلکہ برسرِ اقتدار سیاسی قیادت اسکی کارکردگی کو ملکی مفاد میں بہتر کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ بھارت کی خصیص دشمنی پر مبنی سوچ نے کھیل کے میدان کو بھی نہیں چھوڑا۔
آج ملک اور  دنیا میں جتنے بھی  پاکستانی ہیں۔ پاک فوج زندہ باد کا نعرا  ان کے دل کی اواز بن چکی ہے۔ تاہم ملکی ترقی کا راز ہر ادارے کو اپنی حدود و قیود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن سر انجام دینے میں ہے۔ فوج کے خلاف ایک مخصوص سیاسی جماعت نے جو تاثر دینے کی کوشش کی۔ وہ سلگتے ہوئے زمینی حقائق کے منافی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں پل کر سنگھاسن اقتدار پر براجمان ہوئے والے جمہوری نظام کو تہہ و بالا کرنے میں برابر کے شریک جرم ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور احتساب کا فقدان ہوگا۔جب ان میں کوئی جماعت برسر اقتدار آ جائے گی تو ملک میں بھی جمہوریت اور احتساب کا فقدان ہی ہوگا۔ ہمیں زمینی حقائق کو کسی جماعت کے نظریات کی عینک پہن کر دیکھنے کی بجائے پاکستان پاکستانیت اور پاکستان کے جھنڈے کی سربلندی کی عینک پہن کر دیکھنا ہوگا۔ جب ایسا ہوگا تو چیزیں مختلف نظر ائیں گی۔ اندھی سیاسی تقلید بڑی تباہی لاتی ہے۔ 
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا 
وقت اگیا ہے کہ ہر فرد اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے۔ ذات کی درستگی میں ہی ملک و قوم کی درستگی کا سچ چھپا ہوا ہے۔ لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔میں بڑے ادب کے ساتھ اس سوچ اور نظریے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ  ایمانداری ہے۔ایک تھانے کا ایس ایچ او ایماندار ہو جائے تو اس علاقے سے آدھے جرائم ختم ہو جاتے ہیں۔ایک وزیر، وزیر اعظم ، صدر مملکت اور آرمی چیف ، جج اور میڈیا پرسن ایماندار ہو جائے تو ملک میں انصاف اور میرٹ کی عملداری آجاتی ہے۔اس کے برعکس بے عمل عالم دین بھی فتنہ ہوتا ہے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال سب سے بڑی کرپشن ہے۔محنت اور ایمانداری سے ہر شخص کو اپنی ذات کو درست کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی قران میں فرماتے ہیں کہ 
''اے انسان تو کیا چاہتا ہے، میں دوں گا ، تو اس کے لیے کوشش کر''
اللہ کے نظام میں انصاف ہے ،جب کہ انسان کا نظام خامیوں بھرا ہے۔ اللہ کے نظام سے روشنی لے کر اپنی ذات کا حصہ بنانے والا فرد ،معاشرہ اور ملک ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ بحیثیت مسلمان ہماری اصل محنت اور ایمانداری ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ'' جب تم کسی کام کا پختہ ارادہ کر لو تو مجھ پر بھروسہ کرلو''
ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ سوچ بدل گئی تو سب کچھ بدل سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

ای پیپر دی نیشن