بھارتی پراپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے عالمی سفارتی مہم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت عروج پر اور دونوں ملک ایٹمی جنگ کے انتہائی قریب تھے۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہماری پاکستان سے بہت عمدہ بات چیت ہوئی ہے، ہم پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتے کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ بھارت کے معاملے میں تو وہ پُر یقین تھے تاہم پاکستان سے بھی تجارت پر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی ذہین لوگ ہیں، وہ حیرت انگیز اشیاء بناتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ان کے پاکستان سے اچھے تعلقات ہونے کے باوجود امریکا اس ملک سے زیادہ تجارت نہیں کرتا۔ پسِ پردہ سفارتکاری کے بارے میں صدر ٹرمپ نے بتایا کہ درحقیقت انھوں نے اپنے اہلکاروں سے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو ٹیلی فون کریں، تجارت اور ملاقاتوں کا آغاز کریں، انھوں نے فریقین سے کہا کہ ہم تجارت کو بہت زیادہ بڑھائیں گے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ تجارت کو دشمنیاں ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اسی طرح، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت پرزور دیں گے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کریں۔ اسلام آباد میں اپنے دو روزہ دورے کے اختتام پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکا اور خلیجی ممالک سے مل کرپاکستان بھارت جنگ بندی کو پائیداربنانے کے لیے کام کررہے ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار جنگ بندی کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات پر بھی کام کررہے ہیں۔ انٹرویو میں ڈیوڈ لیمی نے مزید کہا کہ یہ دو ہمسایہ ممالک ہیں جن کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن حالیہ عرصے میں ان کے درمیان بمشکل کوئی بات چیت ہوئی ہے اور ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کوئی مزید کشیدگی نہ ہو اور جنگ بندی قائم رہے۔ 
ادھر، وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ایران کے صدر مسعود پیزشکیان سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی جس میں وزیراعظم نے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایران کی مخلصانہ اور برادرانہ سفارتی کوششوں پر صدر پیزشکیان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کا خواہاں ہے اور اسی جذبے کے تحت اس نے بھارت کے ساتھ جنگ بندی مفاہمت پر اتفاق کیا اور اسے برقرار رکھنے کے لیے پرعزم رہے گا۔ وزیر اعظم نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ خلاف ورزی کی کوشش پر تشویش کا اظہار کیا، اس اقدام کو پاکستان غیر قانونی اور سرخ لکیر سمجھتا ہے کیونکہ یہ پانی 24 کروڑ لوگوں کے لیے لائف لائن ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اس کے منصفانہ حل کو خطے میں پائیدار امن کی کلید قرار دیا۔
علاوہ ازیں، وزیراعظم نے بھارتی پراپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے عالمی سفارتی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے بھارتی جارحیت کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی ہے۔ کمیٹی میں مصدق ملک، خرم دستگیر، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور جلیل عباس جیلانی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری حالیہ پاکستان بھارت تنازعے کے پیش نظر وفد کے ہمراہ یورپ کا دورہ کریں گے۔
اسی طرح، نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ ہم سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت کو بھرپور جواب دے چکے ہیں۔ مناسب نہیں کہ پانی سے متعلق منصوبہ میڈیا پر سامنے لاؤں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کال کی اور بتایا کہ بھارت جنگ بندی پر تیار ہے، ہم نے جواب دیا اگر بھارت سیز فائر پر تیار ہے تو ہم بھی تیار ہیں۔ نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم نے امریکی وزیر خارجہ کو جواب دیا کہ اگر بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو ہمیں جواب دینے کا حق ہے۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا بیانیہ اجاگر کرنے کے لیے پورا منصوبہ تیار ہو چکا ہے، ہمارے ارکانِ پارلیمان کا ایک وفود امریکا، دوسرا وفد برطانیہ، بیلجیم اور فرانس جائے گا جبکہ ہمارا ایک وفد روس بھی جائے گا۔ ہم ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ بھارتی جارحیت کے حوالے سے حکومت کی طرف سے بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مختلف ملکوں میں جانے والے وفود یقینا بین الاقوامی برادری کے سامنے نہ صرف بھارت کی جارحیت اور پاکستان میں اس کی تائید و حمایت سے ہونے والی دہشت گردی کے ثبوت رکھیں گے بلکہ انھیں یہ بھی باور کرائیں گے کہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے کی جانے والی مذموم حرکتیں قیامِ امن کو کس طرح نقصان پہنچا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ جب تک اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، جنوبی ایشیا پر جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے اور پاکستان اور بھارت کے جوہری قوت کے حامل ہونے کی وجہ سے صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا مستقبل خطرات سے دوچار رہے گا، لہٰذا بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

ای پیپر دی نیشن