جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے

سوچ کی کوئی سرحد ہوتی ہے نہ ماضی اور حال کی بندش اس کی بے فکر اْڑانوں پر پہرے بٹھا سکتی ہے۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی دریچے پر بن بلائے دستک دیکر اسے ذہن کی وسعتوں میں ’’وا‘‘ کر سکتی ہے۔ 
موجودہ علاقائی صورتحال دیکھ کر مجھے ’’بدر‘‘ کے وہ 313 بے سروسامان مجاہد یاد آ گئے جنہوں نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کا غرور اس کی کثرت سامانی سمیت خاک میں ملا دیا تھا۔ سوچ کی پرواز جاری رہی ذہن میں چپکے سے وہ تین سو سپارٹن فوجی بھی در آئے جنہوں نے سر سے پاؤں تک غرور میں ڈوبے ہوئے سپر طاقت کے شہنشاہ کو ’’تھرموپولی‘‘ کے مقام پر روکے رکھا تھا۔
مجھے پنجاب کے سپوت ’’پورس‘‘ کا دفاع وطن بھی یاد آ گیا جس پر اب نئی تحقیق بتا رہی ہے کہ وہ جنگ ہارا نہیں تھا بلکہ یہ سکندر کے حواریوں اور ’’سرکاری مؤرخوں‘‘ کا پراپیگنڈا تھا جس طرح آج منہ کی کھا کر بھارتی میڈیا کر رہا ہے بلکہ ’’پورس‘‘ نے اس وقت کی سپر طاقت سکندراعظم کی منہ زور فوجوں کا رْخ موڑ کر اسے اپنی سلطنت کے باہر ایک مشکل ترین مقام سے دریائے جہلم عبور کرنے پر مجبور کر دیا تھا اور اس کی ’’فوج بخشی‘‘ کرکے وہی سلوک کیا تھا جو بادشاہ بادشاہوں سے کیا کرتے ہیں۔
فوجی کارروائیوں سے ہٹ کر میرا ذہن انفرادی حمیت تلاش کرتا ہوا قبل ازم اسلام کے سب سے بڑے عرب شاعر امرالقیس پر بھی جا ٹکا جو تھا تو زمانہ جاہلیت کا عیاش شاعر لیکن اس کے کم از کم ایک کارنامے نے سب کے دل موہ لئے تھے جب وہ تن تنہا اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینے نکل پڑا تھا اور کشتوں کے پْشتے لگا دیئے تھے۔ 
ثابت ہوا کہ اگر ’’گھروں سے حمیت نامی چڑیا‘‘ اْڑ کر کہیں اور بسیرا نہ کر چکی ہو تو عددی برتریاں اپنی افادیت کھو دیا کرتی ہیں اور چھوٹی جماعتیں اور اکیلے افراد بھی اپنے وقار کا بھرم رکھنے میں کامیاب ہو جایا کرتے ہیں اصل چیز سازوسامان اور اعداد کی برتری نہیں ہوتی بلکہ وہ شان سلامت رہنی چاہئے جس دھج سے کوئی ہر وقت مقتل جانے کیلئے تیار رہتا ہے۔ 
اب یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ آخر جنگ ہے کیا اور کیوں برپا کی جاتی ہے؟ جس طرح قدیم دور کا جنگی حکمت عملی کا ماہر ’’شن زو‘‘ کو مانا جاتا ہے اسی طرح جدید دور کا ماہر پروشین (جرمن) جرنیل کارل وان کلاسیوچ کو سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’On War‘‘ میں بتاتا ہے کہ ’’جدید دور میں جنگ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک گروہ دوسرے کو زیر کرکے اپنی خواہشات اور مرضی مسلط کر دے اور اس کے وسائل پر قبضہ کر لے‘‘ ۔ دوسرے لفظوں میں کسی گروہ یا ملک کے باسیوں سے انسان ہونے کے تمام حقوق چھین لئے جائیں جس طرح استعماری قوتوں نے 17 ویں صدی سے نو آبادیاں بنا کر چھین لینا شروع کئے تھے۔
انسان کو نارمل اور باوقار زندگی گزارنے کیلئے جہاں بنیادی ضروریات درکار ہوتی ہیں وہاں آزاد زمین اور غلامی سے پاک جسم و جاں کی بھی احتیاج ہوتی ہے۔ ذرا جانوروں کو ہی دیکھ لیں اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام ’’شیرحضرات‘‘ جنگل کی انتہائی سخت زندگی اور فاقہ مستیاں چھوڑ کر شہر کے چڑیا گھروں میں موجود ’’عالی شان پنجروں‘‘ کا رْخ کر لیتے۔ ’’مفت کی مے پیتے اور سوچتے ان کی ’’پنجرہ مستیاں‘‘ ایک روز خود ہی رنگ لے آئیں گی اس لئے زیادہ جان جوکھوں میں ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
ذراء سوچئے ایک صاحب علم اور دنیاوی وسائل سے مالا مال شخص کے بارے میں … یقیناً وہ پہلی نظر میں ہر اعتبار سے قابل تقلید دکھائی دے گا لیکن یہ معلوم پڑنے پر کہ نہ صرف اس کا قلم کسی کے پاس گروی ہے بلکہ اس کے ذہن کو بھی کسی نے غلام بنا لیا ہے تو وہ شخص اچانک انسانیت کے درجے سے انتہائی نیچے گرا ہوا محسوس ہوگا بلکہ اس بندر سے بھی کم تر لگے گا جو کسی درخت پر آزادی سے بیٹھا کیلا کھا رہا ہوتا ہے۔ ڈارون کے ماننے والے تو یہ دیکھ کر نظریہ ارتقا کی الٹی گنتی ہی شروع کر دیں گے۔
 دنیا میں سب سے زیادہ جدوجہد آزادی، خود مختاری اور وقار کے تحفظ کی ہوئی ہے سب سے زیادہ خون آزادی کی حفاظت کیلئے بہا ہے اور قیامت تک بہتا رہے گا۔
بیلجیئن خاتون مفکر انالین ڈی جن کی کتاب ’’Freedom‘‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے نسل در نسل کتنی قربانیاں دی ہیں کتنے گریبان چاک کئے ہیں تو پھر کہیں جاکر اس درجہ پر پہنچا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا ’’دیدہ ور‘‘ پیدا ہو سکے۔
انسانی آزادیوں کو ہمیشہ سے زیادہ تر خطرات ان لوگوں سے نہیں رہے جو کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں کیونکہ وہ آزادیوں کی حفاظت کیلئے مگرمچھ کے آنسو نہیں بہایا کرتے بلکہ دو ٹوک مؤقف دیا کرتے ہیں۔
 آزادیوں کو ہمیشہ لبرل ڈیموکریسی کی کوکھ سے جنم لینے والے ان بھیڑ نما بھیڑیوں سے خطرہ رہا ہے ’’جو نام تو امام حسینؓ  کا لیتے ہیں لیکن در حقیقت ساتھی یزید کے ہوا کرتے ہیں‘‘ اور جب بھی موقع ملے ’’آپ کی حکومت‘‘ آپ کے ذریعے، آپ کے لئے‘ کے نعرے کا سہارا لیکر ہر گھڑی انسانوں کا تازہ خون پینے سے گریز نہیں کرتے۔ 
ایسے نفسیاتی مریضوں کو ’’ٹرائے‘‘ کے اس بوڑھے کمانڈر کے الفاظ میں اس وقت تک انتظار کرانا چاہئے جب تک جسم و جاں میں خون کا آخری قطرہ تک موجود رہتا ہے۔
 آزادیوں کے دعوؤں اور جمہوریت کے بوٹوں میں فاشسٹوں کے قدموں کی چاپ سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے ان کی عددی برتری اور وسائل کی کثرت سے بالکل نہیں گھبرانا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مودی ہو یا نیتن یاہو… یہ شکست خوردہ ذہنیت کے لوگ پیدا ہی ہارنے کیلئے ہوتے ہیں ان کی سوچ ان کا عمل بذات خود ایک شکست ہوا کرتا ہے اور یہ جب تک زندہ رہتے ہیں زمین کا بوجھ بن کر جیتے ہیں۔
خود ہی سوچ لیں۔ کتنے ’’ہٹلر‘‘ کتنے ’’مودی‘‘ اور کتنے ’’نیتن یاہو‘‘ ہیں جنہیں دنیا آج اچھے ناموں سے یاد کرتی ہے یا ان کی یاد میں چراغ روشن کئے جاتے ہیں۔ زندگی کی پھٹکار اور ’’عبرتناک گمشدگی ان کا مقدر ہوا کرتی ہے۔اپنے وقار اور اپنی خود مختاری کا تحفظ ہی زندگی ہے جس طرح پھول کے بغیر بھنورے کا ذکر بے کار ہوتا ہے اسی طرح آزادی کے بغیر زندگی بے معنی ہوا کرتی ہے۔
دنیا میں جگمگاتے رہنے کیلئے اصل آزادی کی حفاظت ہر دم کرنی چاہئے لیکن اصل آزادی کے معنی بھی اچھی طرح سمجھ لینے چاہئیں۔ موجودہ عہد کے عظیم سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا نے اپنی کتاب   Long walk to Freedom  میں کیا خوب لکھا ہے کہ ’’آزادی محض اپنی زنجیریں توڑنے کا نام نہیں بلکہ درحقیقت آزادی دوسروں کی آزادی اور خود مختاری کے احترام کا نام بھی ہے۔‘‘ نارمل انسان اور معاشرے وہی ہوتے ہیں جو اپنی آزادی کی حفاظت کے ساتھ دوسروں کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں ورنہ تو سب اس دنیا کا کوڑا کرکٹ ہے اور کچھ نہیں۔
آزادی کے حقیقی متوالوں کو چھوڑ کر لبرل ڈیموکریسی کے تمام ’’مامے چاچے‘‘ کان کھول کر سن لیں اگر وہ اپنے لوگوں کو بیوقوف بناکر چند ووٹوں کی برتری حاصل کرکے دوسروں کو غلام بنانے اور ان کی آزادیاں چھیننے کے درپے ہیں تو وہ بالکل بھی انسان نہیں ہیں بلکہ انسانی کھال پہنے وہ بھیڑیئے ہیں جو ہر گھڑی دوسروں کے وسائل اور سوچ کے مالک بننے کی سعی ناکام میں مبتلا رہتا ہے۔
دنیا کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے لوگوں کی جگہ اقتدار کے سنگھاسن نہیں بلکہ نفسیاتی علاج کے ہسپتال ہیں اور اس سے قبل کہ یہ لوگ اپنی غلیظ خواہشوں کے حصول کے لئے دنیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیں انہیں ان کی ’’اصل منزل‘‘ کی طرف روانہ کر دینا چاہئے۔ ایسے لوگوں اور ایسی سوچ کے خلاف جنگ لازم ہے تاکہ انسانیت کو حقیقی آزادی سے سرفراز کیا جا سکے۔
معاملہ خودمختاری اور وقار کا آجائے تو نہ صرف چڑیاں ملکر شیر کی کھال کھینچ سکتی ہیں بلکہ بڑے سے بڑے ہاتھی کو ’’اگلے جہان‘‘ پہنچانے کے لئے ایک چیونٹی بھی کافی ہوتی ہے۔ 
معراج فیض آبادی سے منسوب شعر سْن لیں:
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن