جمہوریت کے دعوے اور بھارت

بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار ریاست ہے آج تک جو کچھ اپنے ہی لوگوں کیساتھ کیا ہے اس کی مثال جمہوری تاریخ کیا کسی ایسے دور میں بھی نہیں ملتی جس میں انسانوں کو جینے کا حق بھی دینے کے لیے تیار نہ تھے وہ نمرور کا ہو فرعون کا ہو یا ماڈرن دنیا میں ہٹلر کا دور ہو یا کسی ڈاکو کی ریاست ہو تب بھی اس طرح نہیں ہوتا تھا گجرات کی تاریخ میں جو کچھ مودی نے کیا زندہ اپنے ہی لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر جلا کے راکھ کر دیا جس پر امریکی حکومت نے بھی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی پھر وزیراعظم بن کے جو کچھ مسلمانوں سکھوں اور چھوٹی ذات کے ہندووں کیساتھ ہوا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور پھر 370ختم کرنے سے قبل اور بعد از آج تک کشمیریوں سے جینے کا حق تقریبا چھین لیا ہے نوجوانوں کو چن چن کے مارا جارہا ہے اور کشمیری مسلم بیٹیوں کی عزتیں پا مال کی جارہی ہیں اور دنیا بھر کی جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی علمبردار مملکتیں اس پر اور فلسطینیوں کے معاملے پر ماسوائے زبانی خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکیں
اب بھارت میں سچ بولنے پر پابندی کا باقاعدہ آغاز کیا جا رہا ہے اور کسی کو بولنے کی آزادی نہیںہوگی ایک پوسٹ لگانے پر ردعمل ملاحظہ فرمایئے
 آٹھ مئی کوکی گئی ایک پوسٹ میں پروفیسر علی خان نے لکھا: ’میں بہت سے دائیں بازو کے مبصرین کو کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوں، لیکن شاید یہ لوگ اسی طرح ماب لنچنگ، گھروں کو مسمار کرنے اور بی جے پی کی منافرت سے متاثرہ افراد کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو انڈین شہری ہونے کے ناطے تحفظ دیا جائے۔پروفیسر علی خان نے لکھا: ’دو خواتین فوجیوں کے ذریعے معلومات دینے کا نظریہ اہم ہے لیکن اس نظرئیے کو حقیقت میں بدلنا چاہیے، نہیں تو یہ محض منافقت ہے۔تاہم پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ میں انڈیا کے تنوع کی تعریف کی ہے۔انھوں نے لکھا: عام مسلمانوں کو درپیش زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے جو حکومت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ پریس کانفرنس (کرنل صوفیہ اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ) سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا تنوع میں یگانگت کی سوچ پر عمل پیرا ہے اور ایک خیال کے طور پر یہ ابھی پوری طرح سے مرا نہیں ہے ۔پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ کے آخر میں انڈین جھنڈے کے ساتھ ’جے ہند‘ لکھا ہے۔وکلاء کا کہنا ہے کہ انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا پولیس تحویل میں رکھنے کی کوشش کی جائے کہ انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا پولیس تحویل میں رکھنے کی کوشش کی جائے گی
پروفیسر علی خان کی اہلیہ اور وکیل نے کیا کہا؟
پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کے بارے میں زرایع ابلاغ نے ان کی اہلیہ سے بات کی ہے۔پروفیسر علی خان کی اہلیہ عنائزہ نے زرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ’صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے پولیس کی ایک ٹیم اچانک ہمارے گھر پہنچی اور پروفیسر علی خان کو بغیر کوئی اطلاع دئیے اپنے ساتھ لے گئی۔عنائزہ نے کہا کہ ’میں نو ماہ کی حاملہ ہوں، جلد ہی ڈلیوری ہونے والی ہے۔ میرے شوہر کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے زبردستی گھر سے لے جایا گیا ہے۔دریں اثنا پروفیسر علی خان محمود آباد کے وکلا کی ٹیم کے ایک وکیل نے میڈیا کو بتایا کہ ’ہم یہ فرض کر رہے ہیں کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے اور انھیں ٹرانزٹ ریمانڈ پر سونی پت لے جایا جا رہا ہے۔ انھیں وہاں کی مقامی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ابھی ہم مزید معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہریانہ پولیس نے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔اطلاعات کے مطابق پولیس نے انھیں فوج کے ’آپریشن سندور‘ پر تبصرہ کرنے پر گرفتار کیا ہے یوگیش نے کہا ہے کہ وہ جٹھیڑی گاؤں کے سرپنچ بھی ہیں اور یہ کہ انھوں نے ہی اس معاملے میں ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ یوگیش نے کہا ہے کہ وہ بی جے پی کے رکن بھی ہیں حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
خیال رہے کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب پاکستان کے خلاف انڈین فوج کے 'آپریشن سندور' کے بعد خارجہ سیکریٹری وکرم مصری کے ساتھ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے پریس بریفنگ میں معلومات دی تھیں۔اس کے بعد آٹھ مئی کو پروفیسر علی خان محمود آباد نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی تھی۔ اس پوسٹ میں انھوں نے کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کو پریس بریفنگ میں بھیجنے کے بارے میں لکھا تھا۔اس کے علاوہ پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ میں انڈیا،پاکستان تنازع اور ’جنگ کا مطالبہ کرنے والوں‘ کے جذبات کے بارے میں بھی لکھا اور جنگ کے نقصانات بھی بتائے۔ اب آپ یہ بھی جانیے کہ علی خان کون ہے اور بھارتی حکومت کیوں پریشان ہے نوجوانوں کے ایک نمائندے کے طور پر ایک استاد کیساتھ اسی طرح ہوتا ہے کیا،پروفیسر علی خان اشوکا یونیورسٹی، ہریانہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں یہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے۔علی خان محمود آباد علم سیاسیات اور تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ وہ شعبہ سیاسیات یعنی پولیٹیکل سائنس شعبے کے سربراہ بھی ہیں۔علی خان محمود آباد کی فیس بک پروفائل کے مطابق وہ اتر پردیش کے محمود آباد کے رہائشی ہیں۔اشوکا یونیورسٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق انھوں نے امریکہ کے ایمہرسٹ کالج سے تاریخ اور سیاسیات میں گریجویشن کیا ہے۔اس کے بعد انھوں نے دمشق یونیورسٹی شام سے ایم فل کیا۔ اس عرصے میں انھوں نے نہ صرف شام بلکہ لبنان، مصر اور یمن کا بھی سفر کیا اور کچھ وقت ایران اور عراق میں بھی گزارا۔ انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی، انگلینڈ سے پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔
اپنے انسٹاگرام اور ایکس پروفائل میں علی خان محمود آباد نے خود کو سماج وادی پارٹی کا لیڈر بتایا ہے۔ ان کے انسٹاگرام اور فیس بک ٹائم لائن پر پارٹی سربراہ اور ریاست اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کے ساتھ ان کی کچھ تصاویر بھی ہیں۔مگر پروفیسر یا سیاسی جماعت نے سیاسی طور پہ کہیں سیاسی جدوجہد کا ذکر نہیں ملتی۔
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا دنیا انصاف کیساتھ ہوتی ہے نہیں صرف مفادات کیساتھ ہمیں اپنی ریاست اور ریاست کے اداروں کا احترام کرنا لازم ہے اور انکی طاقت بننے پر توجہ مرکوز رکھنی چائیے اور ریاست کو بھی اپنے فرائض کیساتھ ریاست کے مکینوں کی زندگی میں آسودگی پر بھی کام کرنے پر توجہ دینی ہوگی ورنہ یہ سب بے سود نہ ہو جائے بھارت دراصل بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی سے پریشان ہے کیونکہ اس میں نوجوانوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس سے خوفزدہ ہے کیونکہ بھارت کی بہت سی ریاستوں میں تبدیلی کی تحریک چل رہی ہے اور بھارت اپنی ہی قوم پر اب اعتبار کے لیے تیار نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن