لوگ اوروقت

سفینہ سلیم 

 انسانوں کی دنیا اب دکانداری میں بدل چکی ہے۔ ہر مسکراہٹ کی قیمت ہیہر لفظ تول کر بولا جاتا ہے اور ہر لمحہ جو کسی کو دے دیا جائے  وہ احسان بن جاتا ہے۔ کیا یہ وہی معاشرہ ہے جہاں بے لوث عزت و محبت کو عبادت کہا جاتا تھا؟ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو دوسروں کی تکلیف کو اپنا دکھ سمجھتے تھے؟
اب لوگ وقت دیتے ہیں، مگر دل کے ساتھ نہیں گھنٹوں کے حساب سے۔ اور پھر وہ دیاہوا وقت بھی جتا دیتے ہیں ایسے جیسے انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی خزانہ آپ پر لٹا دیا ہو۔
کبھی کبھی کسی تھکے ہارے شخص کو فقط چند لمحے چاہییں ہوتے ہیں  کوئی ایسا جو بنا گنوائے بنا طعنہ دیے صرف بیٹھ جائے سن لے اور چل دے مگر یہاں تو خیرات میں دیا گیا وقت بھی رسید کے ساتھ آتا ہے۔ وہ لمحے جنہیں قربتوں کی بنیاد بننا تھااب قرض نامے بن چکے ہیں۔
کاش لوگ جانتے کہ کچھ گھڑیاں جب خاموشی سے کسی کو دی جاتی ہیں تو وہ دل کے اندر صدیوں تک بسا کرتی ہیں مگر جب وہی گھڑیاں طعنوں میں بدل جائیں تو وہ لمحے گھاؤ بن کر رہ جاتے ہیں۔ وقت جو کبھی مرہم ہوا کرتا تھا آج کل زخم بننے لگا ہے۔
اب تعلقات کا توازن یوں ہوتا ہییاد ہے میں نے اْس دن تمہارے لیے وقت نکالا تھا؟
ہاں، یاد ہے اور اب اْس یاد کی چبھن دل میں رہ گئی ہے۔
محبت، دوستی، ہمدردی  سب کچھ اب لین دین بن چکا ہے۔ خلوص اگر ہو بھی تو دکھاوے کی چادر اوڑھ کر آتا ہے۔ اور دل وہ تو اب بس اندر ہی اندر روتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی واقعی بنا جتائے وقت دے دے تو لگتا ہے جیسے کسی بنجر دل پر بارش کی پہلی بوند گری ہو۔
یہ دنیا بہت خوبصورت ہو سکتی ہے… اگر ہم وقت دینا سیکھیں اسے جتائیں مت۔
کیونکہ یہ وقت ایساہیجو دکھائی دیتا ہینہ چھوا جا سکتا ہیمگر سب کچھ اسی کے گرد گھومتا ہے۔ وقت جو کبھی کسی کی مسکراہٹ میں چھپا ہوتا ہے کبھی کسی کی خاموشی میں۔ وقت جو ایک بوڑھی ماں کے انتظار کی طرح سست چلتا ہے اور کسی مسافر کے سفر میں بیرحمی سے تیز دوڑتا ہے۔مگر آج کے زمانے میں وقت بھی باقی رشتوں کی طرح ایک سودا بن گیا ہے۔
اب لوگ وقت دیتے ہیں مگر محبت کے جذبے سے نہیں  حساب و کتاب کے ساتھ۔ ایک دوست کو فرصت کے کچھ لمحے دے دیے ایک عزیز کی بات سن لی کسی کی مشکل میں اس کا ہاتھ تھام لیا  اور پھر اگلے ہی دن یا اگلی ہی بات پر وہ لمحے آنکھوں کے سامنے لہرائے جاتے ہیں۔
 شاید وہ لمحے ہی تو ہیں جو زندگی کا سہارا بن سکتے ہیں جوہم کسی کودیتیہیں اگرہم ان لمحات پر طعنیکی مہرنہ لگائیں
آج کے تعلقات میں سب کچھ مشروط ہے۔ محبت کی بنیاد اب خلوص نہیں بلکہ موازنہ ہے۔ میں نے تمہارے لیے کیا کیا؟اور تم نے بدلے میں کیا دیا؟
دوستی اب احساس نہیں رہی ایک معاہدہ بن چکی ہے  جس میں جذبات کی نہیں ادھار کی زبان لکھی جاتی ہے۔
اور سب سے قیمتی ادھار؟ وقت!
آج اگر کوئی ساتھ بیٹھ بھی جائے تو ساتھ بیٹھنے کا اعلان پہلے کرتا ہے، اور جدا ہوتے ہی گنوا بھی دیتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں ہم نے تمہیں وقت دیا
لیکن میں پوچھنا چاہتی ہوں کیا تم نے اپنا دل بھی دیا تھا؟
کیونکہ وقت تو محض گھڑیاں ہیں اصل دولت وہ احساس ہے جو وقت کے ساتھ بانٹا جاتا ہے۔ اگر وہ خلوص نہ ہو تو لمحے بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔
محبت میں دیا جانے والا وقت کبھی جتایا نہیں جاتا۔ وہ سادہ سا لمحہ جب کوئی بنا مطلب کے آپ کا حال پوچھے جب کوئی صرف آپ کے ساتھ بیٹھنے آئیجب کوئی خاموشی میں بھی آپ کا ساتھ نبھائے  وہ وقت سب کچھ کہہ جاتا ہیبغیر کہے۔
اور جب وہی لمحے بار بار یاد دلائے جائیں تو ان کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔ وہ دکھ بن جاتے ہیں  انمول ہونے کے بجائے تلخ ہو جاتے ہیں۔
دل چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو وقت دے اور بھول جائے کہ دیا تھا۔
کوئی ہو جو سنے اور یہ نہ کہے کہ میں نے سنا تھا۔
کوئی ہو جو بس ہو بغیر اس کے کہ اس کے ہونے کی قیمت چکانی پڑے۔
 وقت دینا نیکی ہے، اور نیکی کو جتانا، اس کا صلہ مانگنا  اس کے حسن کو زائل کر دیتا ہے۔
اور شاید، ہم یہ جاننانہیں چایتے کہ کسی کو وقت دینا صرف گھڑی دیکھنے کا نام نہیں، بلکہ دل کی گہرائی سے اس کے درد کو سننے کا ہنربھی ہے۔
کبھی وقت ملا تو خود سے یہ سوال ضرور کیجیے گا 
کیا میں نے کبھی کسی کو وقت دیا ہے؟
اور اگر دیا ہے، تو کیا اس پرملال ہو خود پر فخر کیا… یا شکر؟

ای پیپر دی نیشن