بھارت کی طرف سے مسلط یدھ تھم گیا لیکن کہرا چھایا ہوا ہے، اس دھندلکے میں کیا چھپا ہے ، کیا معلوم، البتہ یہ سب کو معلوم ہے کہ بھارت کی سرکار زخمی سانپ کی طرح ہے، جوابی وار کرنے کا سوچ رہی ہے، لیکن ساتھ ہی اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ زخمی سانپ بری طرح ڈرا بھی ہوا ہے۔ اور عام خیال ہے کہ یہ ڈر زخمی سانپ کو وار کرنے سے روکے رکھے گا، پھر بھی خبردار تو رہنا ہو گا، اور خبردار بھی بہت زیادہ۔
ادھر زخمی سانپ کے پاکستانی چیلوں کی جماعت نے کہ نام جس کا ٹھکی ٹھکائی پارٹی ہے، پاک فوج پر نیا حملہ شروع کیا ہے۔ یہ کہ مانا کہ ہماری ایئرفورس بڑی زبردست ہے لیکن برّی فوج نے کیا کیا، یہ تو کسی کام کی نہیں نکلی۔
کوئی ڈونکی راجوں کے اس بے ہنگم غول کو جا کر بتائے کہ کنٹرول لائن کے پار، بھارتی زیر قبضہ علاقے میں بہت سا رقبہ اب بھارت کے پاس نہیں ہے۔
22 چوکیوں پر ہمارا کنٹرول ہے، یہ بیان تو ایک وفاقی وزیر نے بھی دے دیا۔ اصل بات تو سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے بتائی نہیں جا سکتی اور اصل بات اس سے بھی آگے کی ہے۔ کنٹرول لائن پر برّی فوج نے 132 چوکیاں بھارت کی برباد کر ڈالیں اور یہ چوکی کوئی ایک کمرے کا کوٹھا نہیں ہوتی، چھوٹی سی، منی ایچر چھائونی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں کنٹرول لائن سے ہٹ کر سیالکوٹ والے بارڈر کے پار کیا ہوا، ٹھکی ٹھکائی پارٹی کیا جانے۔
مزید علاوہ ازیں ایئر ڈیفنس شیلڈ ساری کی ساری برّی فوج نے سنبھالی، مزید تفصیل کیا بتائیں، ٹھکی ٹھکائی پارٹی کیا مانے گی۔
______
ٹھکی ٹھکائی پارٹی کے مفرور امارات، امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو میجر گرو آریہ بھی نہیں کہتا۔ جنگ کے سے حالات پیدا ہوئے تو انہوں نے کورس کی شکل میں غل مچایا کہ اب دیکھنا، بھارت پاکستان کو کیسے سبق سکھاتا ہے۔ امارات میں بیٹھا ہوا ایک کھرب پتی ڈکیت تو سب پر بازی لے گیا۔ ڈکیت سے یاد آیا، ڈھکن والے لوٹے کو کیا کہتے ہیں؟۔ اسے آفتابہ کہتے ہیں۔ عام لوٹے کی نسبت یہ ڈھکن والا لوٹا ذرا لمبوترا اور چھریرا ہوتا ہے اور اس کی چونچ بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے اور ڈھکن والے لوٹے سے یاد آیا، یہودیوں کے جادو کو قباّلہ کہتے ہیں۔
خیر، یہ بات تو بیچ میں یاد آ گئی، اس کھرب پتی غدّار نے پے درپے ولاگ کئے اور بھارت کی برتری اور پاکستان کی کمترین کمتری پر لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی، کہا، بھارت کے آگے پاکستان کی اوقات ہی کیا ہے، ان کا ایک جہاز (رفائل) سارے پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بڑھ کر ہے۔ پاکستان تو بھارت کے پائوں (خاکم بدھن) کی خاک بھی نہیں ہے۔
اس کھرب پتی ٹھگ پر تب کیا بیتی ہو گی جب اس کے تین تین رفائل دیوتا پاکستانی بت شکنوں نے دو روپے کلو کے حساب سے بکنے والے ملبے میں بدل دئیے۔
______
جنگ چہار روزہ تھمی تو ٹھکی ٹھکائی پارٹی بھی واپس اپنے ٹھکانے پر آ گئی اور اس دوران جو لطیفہ برپا ہوا، اسے ’’تواریخ لطائف‘‘ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہوا یوں کہ ٹھکی ٹھکائی پارٹی کے ایک غیر معروف کارکن زبیر علی نے ایک پورا سکرپٹ گھڑا اور اسے سوشل میڈیا کی دیوار لطیفہ پر چسپاں کر دیا۔ سکرپٹ میں لکھا تھا کہ کوئی بہت بڑی، بہت ہی بڑی غیر سیاسی شخصیت چوری چھپے 6 مئی کی رات اڈیالے میں داخل ہوئی، جھک کر مرشد کو سات سلاموں کی سلامی دی اور کہا ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ آپ ہماری مدد کریں، آپ کو بڑی عید سے پہلے رہا کر دیا جائے گا اور اگلا الیکشن آپ کی مرضی کے مطابق کرایا جائے گا۔
یہ لطیفہ بدستور دیوار قہقہہ پر ٹنگا رہتا لیکن ہوا یوں کہ ایک معتبر سمجھی جانے والی بہت ہی معروف میڈیا پرسنالٹی نے اسے اچک لیا، اس پر پوری ’’شرح کبیر‘‘ لکھ ڈالی چند سطری متن پر یہ شرح گھنٹہ بھر کے عادی پروگرام پر محیط ہو گئی۔
بس پھر کیا تھا، کہرام مچ گیا۔ ٹھکی ٹھکائی پارٹی کے ان گنت میڈیا آؤٹ لیٹس پر بس یہی ایک خبر تھی۔ ٹھکے ٹھکائے لوگوں نے عید سے قبل جشن کی تیاری کر لی، سنا ہے بہت بڑی تعداد میں پاں پاں کرنے والے باجے اور شوں شاں کر کے چلنے والی شرلیاں بھی خرید لیں۔
دو دن جشن رہا، تیسرے دن پتہ چلا جو لکھا وہ خواب تھا جو سنا افسانہ تھا۔ اہم کیا، کوئی جمعدار بھی مرشد سے ملنے نہیں گیا۔ حقیقت کھلی تو آکٹوپس کی طرح پھیلا، ٹھکا ٹھکایا سوشل میڈیا ذرا بھی شرمندہ نہ ہوا، اس کے بجائے یہ کہانی چلا دی کہ حکومت نے سازش کے تحت یہ جھوٹی خبر چلائی تاکہ کارکنوں کو ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگا کر اس تحریک کو چلنے سے روک دیا جائے جو بس چلنے ہی والی تھی۔
کون سی تحریک بس چلنے ہی والی تھی، اس عقدے کی کشائی بھی اب اس معتبر شخصیت کی ذمہ داری ہے جس نے ایک ٹھکے ٹھکائے کارکن کی گھڑنت پر پورا پروگرام کر ڈالا۔ کچھ عجیب نہیں کہ یہ معتبر شخصیت آج کل میں یہ وضاحت دے دے کہ میں نے تو دراصل فکاہیہ پروگرام کیا تھا۔ فکاہیہ کالم ہو سکتا ہے تو فکاہیہ پروگرام کیوں نہیں ہو سکتا۔
بہرحال یہ دو چار دن ٹھکے ٹھکائے یوتھیالوں کیلئے یادگار تجربہ رہے۔
______
اصل صورتحال کل کے ایک اخبار میں بااثر، باقدر حلقوں تک رسائی رکھنے والے سینئر صحافی نے بیان کر دی۔ لکھا کہ اِدھر سے تو اڈیالہ کوئی نہیں گیا نہ ہی کوئی جانے والا ہے البتہ اڈیالہ کے گدّی نشین بدستور :
آجا آجا تیرا انتظار ہے کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور جو ٹھکے ٹھکائے لوگ ملاقات کیلئے آتے ہیں ، سب کو آدیش دیتے ہیں کہ کوئی راہ نکالو، کسی سے بھی مذاکرات کر لو، وہ بات نہیں سنتے تو شہباز سے ملنے کی کوشش کرو، وہ بھی نہیں مانتے تو مریم نواز کا منت ترلہ کر لو، وہ بھی نہیں سنتی تو عظمیٰ بخاری کو کال کرو، بہت نرم دل ہیں، کال اٹھا لیں گی، کچھ تو کرو۔