وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کو بڑی یقین دہانیاں کرائی ہیں اور اس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات میں مزید لیوی، بجلی کے بلوں میں ڈیبٹ سروس سرچارج لگانے اور گیس کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کو مزید مالی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق گردشی قرض کی ادائیگی کے لیے بینکوں سے 1252 ارب روپے قرض لیا جائے گا اور یہ رقم اگلے 6 سال میں بجلی صارفین سے وصول کی جائے گی اور بجلی کے بلوں میں 10 فیصد ڈیبٹ سروس سرچارج شامل کیا جائے گا۔حکومت کو ڈیبٹ سروس چارج میں اضافے کا اختیار ہوگا اور نئے بجٹ میں بجلی سبسڈی میں کمی کی جائے گی کیونکہ گردشی قرضے کو 2031ء تک صفر پر لانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔
بجٹ وہ موقع ہوتا ہے جب عوام حکومت سے کچھ ریلیف کی توقع رکھتے ہیں۔ تاہم موجودہ حالات میں عوام کو سہولت دینے کے بجائے مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جو نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ سیاسی و سماجی عدم استحکام کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ اگرچہ حکومت تعمیراتی صنعت کے لیے کچھ ٹیکس میں نرمی اور پراپرٹی سیکٹر میں ودہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجاویز آئی ایم ایف کے سامنے پیش کر رہی ہے، تاہم عوامی فلاح کے لیے کوئی بڑا ریلیف نظر نہیں آ رہا۔حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی اور معیشت کی بہتری کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں، وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں قابو سے باہر ہیں، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، اور غریب و متوسط طبقہ کمر توڑ بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ان حالات میں اگر عوام کو بجٹ میں بھی کوئی ریلیف نہ دیا گیا تو ان کی بے چینی خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک متوازن معاشی حکمت عملی اختیار کرے۔ قرضوں کی ادائیگی اور بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے اشرافیہ کی مراعات اور غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے۔ معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے عوامی اعتماد اور شفاف فیصلے ناگزیر ہیں۔ اگر سارا بوجھ صرف عوام پر ہی ڈالا جاتا رہا تو نہ صرف معیشت کا استحکام خطرے میں پڑے گا بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی حکومت کے لیے صورت حال سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔