بھارت کے جنگی جنون میں مبتلا صحافیوں اور سیاست دانوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کا پانی روکنے کی بات کریں گے تو پاکستان خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کر لے گا یا اس سلسلے میں محض بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کی منت سماجت پر ہی اکتفا کرے گا۔ پاک افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ (ڈی جی آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ان جنگی جنونیوں کی غلط فہمیوں کو اپنے واضح اور دو ٹوک موقف کے ذریعے دور کر دیا ہے۔ اگر اس کے بعد بھی بھارت کی طرف سے کوئی ایسی مذموم حرکت کی گئی تو پھر پاکستان کا ردعمل بین الاقوامی برادری پر واضح کر دے گا کہ ہم ایسی کسی گھناؤنی حرکت کا جواب کیسے دیتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے عرب میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں بھی اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی پاکستان کا پانی روکنے کی جرأت نہ کرے، بھارت نے پانی روکا تو پاکستان کے ردعمل کے نتائج برسوں اور دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان پانی کے معاملے پر بھارت کو واضح کرچکی ہے، فوج کی طرف سے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں،24 کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روکنے کا کوئی پاگل آدمی ہی سوچ سکتا ہے۔ بھارت ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، امید کرتے ہیں ایسا وقت نہ آئے لیکن آیا تو دنیا ہمارے اقدامات دیکھے گی۔
ترجمان پاک افواج کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہم اپنے کیے گئے وعدوں کی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم سیاسی حکومت کی ہدایات کو مکمل طور پر مانتے ہیں اور ان کے عزم کا پاس رکھتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی طرف سے یہ جنگ بندی برقرار رہے گی۔ فریقین کے درمیان رابطے میں اعتماد سازی کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اگر خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہمارا جواب ہمیشہ ہوگا اور موقع پر ہوگا۔ جواب صرف ان ہی چوکیوں اور مقامات پر ہوگا جہاں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں تصدیق کرسکتا ہوں کہ بھارت کا چھٹا گرنے والا طیارہ میراج 2000 ہے۔ ہم نے صرف طیاروں کو نشانہ بنایا۔ مزید کارروائی کرسکتے تھے مگر ہم نے ضبط کا مظاہرہ کیا۔ حملوں کے باوجود ہمارے تمام فضائی اڈے مکمل طور پر فعال ہیں۔ پاک فضائیہ کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی مدد سے فوری طور پر اڈوں کو فعال کیا جاسکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی کشمیر پالیسی، ظلم وجبر اور کشمیر کو اندرونی معاملہ بنانے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ جب تک بھارت بات چیت نہیں کرتا دونوں ممالک مسئلے کا حل نہیں نکالتے، تنازعہ کی آگ بھڑکنے کا خطرہ موجود رہے گا۔ ہم کبھی بھی بھارتی بالادستی کے آگے نہیں جھکیں گے۔ وہ یہ بات جتنی جلدی سمجھ لے، علاقائی امن اور دنیا کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
علاوہ ازیں، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے و الے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے اور ان دعوؤں کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہ کرنے پر کہا کہ نئی دہلی حکومت دہشت گردی کے واقعات کو بہانہ بنارہی ہے۔ اسے اس سے باز آنا چاہیے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ نئی دہلی حکومت ملک میں مسلمانوں اور سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں پر دباؤ ڈال رہی ہے اور اس اقدام سے مزید غصہ، انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی بھارت کی حمایت اور حوصلہ افزائی سے ہو رہی ہے۔ انھوں نے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اپنے بیان میں واضح طور پر بھارت سے فوجی امداد کی درخواست کی تھی اور نئی دہلی کے بعض رہنماؤں، سیاسی شخصیات اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے پاکستان میں اس تنظیم کی حمایت کرنے کے بیانات دیے تھے۔ ہمارے پاس اس بات کے بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کا پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات سے تعلق ہے اور یہ ثبوت بین الاقوامی عدالت انصاف میں جمع کرائے جا چکے ہیں۔
جنرل احمد شریف چودھری نے مزید کہا کہ بھارت جموں و کشمیر کے لوگوں کے انسانی حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر کے تنازعہ کو علاقے کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے بجائے جبر کے ذریعے اور اس کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کر کے اسے اپنا حصہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی حکومت نے 2019ء میں بھی پلوامہ حملے کے بعد جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد بھارت کی پاکستان کو نشانہ بنانے کی کئی وجوہ ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کی ہیں جو بھارت کی پراکسیز ہیں۔ بھارت کے پاکستان پر حملے کا مقصد ملک کے مغربی حصے میں دہشت گرد گروہوں کو سانس لینے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت خطے اور عالمی امن کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اب یہ بات بین الاقوامی برادری پر پوری طرح واضح ہوچکی ہے اسی لیے حالیہ جنگ میں کسی ایک بھی ملک نے بھارت کی حمایت نہیں کی۔ مودی سرکار نے کئی بار یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کردیا گیا ہے لیکن اب پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ سفارتی تنہائی کا شکار کون ہے اور بین الاقوامی برادری کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ صورتحال کسی اور نے نہیں بلکہ بھارت کے اس غرور نے پیدا کی ہے جو جدید ترین جنگی ہتھیار اور مشینیں خریدنے کے بعد بار بار گیدڑ بھبکیوں کی صورت میں نظر آرہا تھا۔ 10 مئی کے معرکہ حق کے بعد بھارت کا غرور ایسا خاک میں ملا ہے کہ اب مودی، اس کی کابینہ کے ارکان اور بھارتی مسلح افواج سے وابستہ افسروں کے لٹکے ہوئے چہروں ہی سے پتا چل جاتا ہے کہ ان لوگوں پر کیا گزری ہے۔
بھارت کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے امریکا نے جنگ بندی کرا دی تو اب مودی سرکار کی طرف سے غلط معلومات پھیلا کر اپنے عوام اور بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی ہی ایک بات بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے بھی کہی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ہم نے حملے سے پہلے پاکستان کو اطلاع دی تھی۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے حملے کی پیشگی اطلاع کسے دی۔ وزیر خارجہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی جاری رہنے کی امید ظاہر کی اور کہا کہ بھارت نے دوبارہ کوئی ایڈونچر کیا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت آج تک پہلگام واقعے کا ثبوت دینے میں ناکام ہے، اس کا سارا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ پاکستان نے ایف 16 بھارت سے کشیدگی کے دوران اڑایا ہی نہیں اور بھارت نے اسے مار گرانے کا دعویٰ کر دیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ افواج پاکستان نے دشمن کو بھرپور جواب دیا۔ بھارت نے جو سفارتی اقدامات کیے ہم نے ان کا بھی جواب دیا ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارتی میڈیا نے شور مچایا تھا، ہم نے مختلف ممالک کو آگاہ کیا تھا کہ ہم پہل نہیں کریں گے، 9 مئی کی رات کو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ 10 مئی کو سوا آٹھ بجے امریکی وزیر خارجہ کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ بھارت سیز فائر کے لیے تیار ہے۔ ہم عوام کی بہتری اور معیشت کے لیے امن چاہتے ہیں۔
22اپریل سے 10 مئی تک ساری دنیا نے یہ دیکھا کہ قیامِ امن کے لیے کوشش کون کر رہا تھا اور مسلسل اشتعال انگیزی سے کام کون لے رہا تھا۔ پاکستان کئی بار ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو یہ بتا چکا ہے کہ بھارت خطے میں عدم توازن پیدا کرنے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کر رہا ہے اور اس کی یہ حرکتیں صرف خطے میں بسنے والے لوگوں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھارت کے لیے خلاف اب تک کوئی ایسی کارروائی نہیں کی گئی جس سے پتا چل سکے کہ عالمی امن واقعی اولین ترجیح ہے۔ اب بھی موقع ہے کہ بھارت کو لگام ڈالی جائے ورنہ اس کی شرارتیں کوئی ایسی صورتحال پیدا کر دیں گی جس سے پوری دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔