ہم بدلیں گے تو معاشرہ بدلے گا

حال ہی میں معروف  ٹی وی اینکر آفتاب اقبال اور کامیڈین سہیل احمد کے درمیان میڈیا پر جو تو تو میں میں ہوئی اس میں آفتاب اقبال نے  بتایا کہ ان کے پروگرام میں جو کامیڈین کام کرتے ہیں ان کی ماہانہ تنخواہ 35 لاکھ روپے سے زائدہے۔ واضح رہے کہ یہ پروگرام ہفتے میں صرف دو یا تین دن ہوتا ہے۔ یہ کامیڈین سٹیج ڈرامے اور ملک اور بیرون ملک شوز بھی کرتے ہیں جہاں سے انہیں معقول آمدنی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے کامیڈین اور سٹیج آرٹسٹ ماشااللہ بہت اچھا کماتے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا معاشرے کے دیگر اہم اور معزز پیشے بھی اس قدر کما تے ہیں یا نہیں۔اگر انہیں تو پھر یہ معاشرے کی غلط ترجیحات اور رذیل سوچ کی غمازی ہے جہاں اُستاد، عالم، ادیب، شاعر اور مصوّر تو نانِ جویں کو ترستے ہوں لیکن جگتیں سنانے والے لاکھوں میں کھیلتے ہوں۔ ہمارے معاشرے کے ایک اور طبقے کے بارے میں بات ہو جائے جنہیں شاعر یا ادیب کہتے ہیں۔ یہ کسی بھی معاشرے کے آنکھ اور کان ہوتے ہیں عوامی جذبات اور خیالات کے ترجمان ہوتے ہیں اور معاشرے کی رہنمائی کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں ۔لوگوں کی سوچ بہتر کرنے اور معاشرے کو سنوارنے کی راہ دکھلاتے ہیں۔ کسی بھی قوم کا عروج اس پر منحصر ہے کہ وہ فکر و نظر اور علم و دانش کی کس نہج پر گامزن ہے۔ بلند و بالا عمارات خوبصورت اور بڑی بڑی شاہرائیں اور جاذب نظر تجارتی مراکز سطحی مظاہر ہوتے ہیں جو کسی بھی قوم کی عظمت اور رفعت کی حقیقی ترجمانی نہیں کرتے۔ فی الحقیقت ذہنی آزادی، افکار و خیالات کی وسعت و ہمہ گیری، انسانیت دوستی اور علوم نافع کی ترویج و اشاعت معاشرے اور قوم کی زندگی کا نوشتہ تقدیر ہوتی ہے اور اسی سے اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کرتی ہے۔ علم و دانش متاع بیش بہا ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کو زندگی کے انقلاب سے آشنا کرتی ہے۔ فکر کی کمزوریوں کو دور کرتی ہے سوچنے سمجھنے کے انداز منظم کرتی ہے اور نشست و برخاست کے آداب سکھاتی ہے۔ فرد اور معاشرے کو انقلاب آفرین نظریات سے آشنا کر کے انہیں عظمت انسانی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ اس لیے کسی بھی مہذّب اور منظم معاشرے میں علم ادب اور دانش کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اہل علم اس معاشرے کی کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور انہیں ہر طرح کی سہولتوں اور عزت سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ معاشرے میںان کی قدرو قیمت سے ہماری ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں شعر و سخن اور علم و فن سے متعلق طبقہ پسماندہ اور بے وسیلہ ہے۔ ا ن اہل فن کووہ معاشی فراغت اور معاشرتی مقام حاصل نہیں ہے جو انھیں حاصل ہونا چاہیے تاکہ وہ بے فکری اور یکسوئی سے اپنے فکر و فن کی شمع جلا سکیں۔ اپنے خاندان کی نگہداشت کے ساتھ فکر وفن کو بھی پروان چڑھا سکیں۔ یہ نابغہ ہمارے ملک کی پہچان ہیں۔ہمارے کھلاڑی،شاعر،ادیب،مصور ،موسیقار، عالم اور دانش ورعوامی اور قومی ترجمانی کرتے ہیں بشرطیکہ انھیں اس کے مواقع فراہم کیے جائیں ان کے فن کی قدر کی جائے انھیں باعزت مقام دیا جائے اور متعلقہ فن کی ترویج و اشاعت میں ان کی اعانت کی جائے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب انھیں عوامی اور ادارہ جاتی تعاون حاصل ہو۔لیکن ہمارے ہاں جہاں حکومتی ترجیحات درست نہیں ہیں وہاں عوام کی سوچ اور پسند بھی عجیب و غریب ہے۔ ہمارے ہاں علم اور ادب سے دلچسپی کم سے کم ہو رہی ہے کتاب پڑھنے کا رواج ختم ہو رہا ہے اچھی اور معیاری موسیقی ناپید ہو رہی ہے اور ان کی جگہ چاہت فتح علی خان جیسے لوگوں نے لے لی ہے اچھی شاعری کی جگہ لغو اور بے ہودہ مزاحیہ شاعری زیادہ مقبول ہو رہی ہے۔ کتاب پڑھنے کا رواج کم ہونے کی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں کو کتاب چھپوانا مشکل ہو گیا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ انتہائی محنت اور مشکل سے لکھی گئی کتاب چھپوانے کے لیے لاکھوں روپے بھی مصنف یا شاعر کو اپنی جیب سے دینے پڑتے ہیں اور پھر کتاب بھی تحفتاً کسی کو دیتے ہیں جولوگ پڑھتے نہیں گھر جا کر رکھ دیتے ہیں۔ حتی کہ کتابوں کی تقریب رونمائی میں تقاریر کرنے والے بھی کتاب پڑھے بغیر آ جاتے ہیں۔ یہ علم و ادب کی ناقدری ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے سے بڑے رائٹرز کی بھی اتنی کتابیں نہیں بکتیں کہ وہ اس آمدنی سے گزارا کر سکے۔ جبکہ یورپ آسٹریلیا،امریکہ جاپان اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں شاعر ادیب یا اس طرح کے علم و ادب سے وابستہ شخصیات کی معاشرے میں نہ صرف بہت زیادہ عزت اور آؤ بھگت ہے بلکہ ان کی معاشی حیثیت بھی اس درجہ سے مستحکم ہوتی ہے کہ ایک کتاب کی رائلٹی سے مصنف ساری زندگی گھر بیٹھ کر باعزت گزارا کرسکتا ہے۔اسے کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ۔یہاں آسٹریلیا میں اب بھی لائبریریاں آباد ہیں اور کتابوں کی بڑی بڑی دکانیں ہیں جہاں سے لوگ کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں ۔ اسی طریقے سے دانشور، علماء اور دیگر طبقات کو معاشرے میں بلندمقام حاصل ہے ۔ ان کواعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ ان پر خصوصی توجہ دیتے ہیں کیونکہ لوگ ان کو سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اتنے زیادہ ٹی وی شوز اور چینل ہونے کے باوجود شاعروں ادیبوں علماء اور دانشوروں کو سننے کا موقع نہیں ملتا۔ ہر چینل پر یا تو اداکار بیٹھے ہوتے ہیں یا پھر کامیڈین کا راج ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارے معاشرے کا غلط امیج سامنے آتا ہے بلکہ نوجوان نسل گمراہ کن اور تضحیک آمیز باتیں سیکھتی ہے جو بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کے لیے ضرر رساں ہے۔
 ہمارے چینل اتنا بھی تردّد بھی نہیں کرتے کہ ان کامیڈین کو ضابطہ اخلاق ہی دے دیں کہ وہ اس دائرے کے اندر رہ کر کامیڈی کریں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک انڈین کامیڈی شو دیکھا جس میں پاکستان کا ایک کامیڈین رؤف لالہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا تھا اس کی ساری کامیڈی عورتوں کی توہین و تذلیل پر مشتمل تھی جس پر ججز جس میں جاوید اختر بھی شامل تھے نے انتہائی برا منایا اور اس کو تنبیہ کی کہ خواتین کے بارے میں ایسے ریمارکس اور وہ بھی نیشنل ٹیلی ویژن پر انتہائی نامناسب بات ہے۔ دوسرے جج نے بھی جاوید اختر کی تائید کی اور رؤف لالہ کو سرزنش کی لیکن رؤف لالہ شرمندہ ہونے کے بجائے ہنس رہے تھے۔ انہوں نے معذرت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس سے نہ صرف ان کا اپنا امیج خراب ہوا بلکہ ایسے ملک میں جہاں ویسے بھی لوگ پاکستان کے خلاف ہیں وہاں پاکستان کا نام بدنام کیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ملک سے باہر جانے والے فنکاروں کھلاڑیوں اور دیگر سرکاری عہدے داروں کی باقاعدہ تربیت اور بریفنگ دی جاتی ہے تاکہ وہ ایسی کوئی بات یا کام نہ کریں جو ملک کی بدنامی کا باعث ہو۔ کیا ہمارے فنکاروں، کھلاڑیوں اور دیگر عہدے داروں کو یہ تربیت دی جاتی ہے۔ بظاہر تو ایسا نظر نہیں آتا۔ہمارے کرکٹ کے کھلاڑی پورا کیریئر گزار دیتے ہیں لیکن انگلش کے چند جملے تک نہیں سیکھتے اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ آخر بنیادی انگریزی سیکھنا کتنا مشکل ہے ایک بچے کو بھی سکھائیں تو وہ چند ہفتوں میں انگریزی بولنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ کس کا قصور ہے، کرکٹرز کا یا ہمارے اداروں کا۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اس سے ہماری قومی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے قومی وقار کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ علم و ادب کی کتنی قدر کرتے ہیں  او راہل علم سے کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قومی پالیسیوں،اپنی ترجیحات اور اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کا ازسر نو جائزہ لیں۔ کتاب سے ازسرِ نو دوستی کریں۔ اپنے اندر علم و ادب کی شمع جلائیں۔علم کی روشنی سے قلب و روح کو منور کرنے کے لیے علم اور عالم دونوں سے ربط پیدا کریں۔ اسے معاشرے میں وہ مقام دیں جو معزز اور ترقی یافتہ قوموں کا خاصا ہے۔ ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے۔ ہم بدلیں گے تو معاشرہ بدلے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن