سردار نامہ…وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogzai@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہماری قوم نے جمہوریت کے حصول کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں، مگر پھر بھی جمہوریت کی جڑیں وہ مضبوط نہ ہو سکیں جیسی کہ ہونی چاہئیں تھیں۔ بہرحال خوشی کی بات یہ ہے کہ طویل عرصے کے بعد، قوم کو ایک ایسی خوشی میسر آئی ہے جو کئی دہائیوں کے غم و الم کے بعد نصیب ہوئی ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس میں ہمیں رک کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ماضی سے کیا سیکھا ہے اور آگے ہمیں کیا راستہ اپنانا ہے۔دعا ہے کہ وہ ہمیں سیاسی اور اجتماعی استحکام عطا فرمائے اور ایسی بصیرت دے کہ ہم بحیثیت قوم عقل و شعور کے ناخن لے سکیں۔ آج کی یہ خوشی صرف ایک سیاسی کامیابی نہیں بلکہ ایک قومی شعور کی بیداری ہے۔ وہ جمہوریت جو پاکستان کے قیام کا اصل مقصد تھی، آج ہمیں اس کی جھلک دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگرچہ ستر سال تک اسے قبول نہیں کیا گیا، لیکن اب عوامی شعور بیدار ہو چکا ہے اور یہ وقت ہے کہ ہم عوام الناس کی فلاح و بہبود پر توجہ دیں اور انہیں ایک خودمختار، باشعور اور باوقار شہری بنائیں۔ایک ایسا شہری جو نہ صرف اپنی آواز بلند کر سکے بلکہ اس کی آواز سنی جائے، سمجھی جائے، اور اس پر عملدرآمد بھی ہو۔ آج تک ہمارے ہاں جتنے انتخابات ہوئے ہیں، وہ درحقیقت ایک دھوکہ تھے۔ ان میں نہ شفافیت تھی، نہ عوامی نمائندگی کا صحیح مفہوم۔ اور آج کی حکومت بھی اسی نظام کی پیداوار ہے، جس پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ ایک نئی شروعات ہو چکی ہے، ایک فتح حاصل ہوئی ہے، تو ضروری ہے کہ ہم تنقید کو تنازع کا باعث بنانے کی بجائے، اسے مثبت انداز میں لیں۔ تنقید میں چھپے سچ کو تسلیم کریں اور مسائل کے حل میں اس کا تعمیری استعمال کریں۔اب وقت آ گیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بنیادی اصلاحات لائی جائیں۔ قومی اسمبلی اور بلدیاتی انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں تاکہ جمہوری عمل کو جڑوں سے مضبوط کیا جا سکے۔ بلدیاتی حکومتیں جمہوریت کا بنیادی ستون ہوتی ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان کی ہمیشہ سے حق تلفی کی گئی ہے۔ ماضی میں صرف مارشل لا ادوار میں بلدیاتی نظام کو فروغ ملا، جیسا کہ مشرف دور میں۔ لیکن وہ بھی ایک مخصوص نکتہ نظر سے کیا گیا، جس میں سیاسی مداخلت اور مفادات غالب رہے۔ بلدیاتی نظام کو سیاسی عمل کا حصہ بنایا جانا چاہئے۔ جس طرح سے سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی سطح پر کام کرتی ہیں، اسی طرح سے انہیں بلدیاتی سطح پر بھی متحرک کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ سارے مسائل نچلی سطح پر ہوتے ہیں، اور اگر ان کا حل مقامی سطح پر کیا جائے تو قومی سطح پر بوجھ بھی کم ہوگا اور عوامی مسائل کا فوری ازالہ بھی ممکن ہوگا۔مضبوط، خودمختار اور بااختیار بلدیاتی حکومتیں جمہوریت کی اصل روح ہیں۔ ان کے پاس ترقیاتی منصوبوں، وسائل کی تقسیم، اور روزمرہ مسائل کے حل کے مکمل اختیارات ہونے چاہئیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جب بھی سیاسی حکومتیں آتی ہیں، وہ بلدیاتی اداروں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں، جس سے نہ صرف ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے بلکہ جمہوریت کی جڑیں بھی کمزور پڑتی ہیں۔ہمیں اس سوچ کو ترک کرنا ہوگا کہ ترقیاتی فنڈز صرف ایم این اے یا ایم پی اے کی صوابدید میں ہوں۔ اصل ترقی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں مسائل جنم لیتے ہیں، یعنی گاں، قصبے اور شہر کی سطح سے۔ جب تک ہم بلدیاتی نظام کو مکمل خودمختاری نہیں دیتے، تب تک جمہوریت صرف ایک نعرہ ہی رہے گی۔اس کے ساتھ ہی ہمیں ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر بھی فوری توجہ دینی چاہئے۔ آبادی کا بے ہنگم اضافہ نہ صرف وسائل کو دباتا ہے بلکہ غربت، بے روزگاری اور تعلیمی و صحت کے نظام پر ناقابلِ برداشت بوجھ بھی ڈالتا ہے۔ ہماری تمام منصوبہ بندیاں، سکیمیں اور ترقیاتی پروگرام آبادی کے اس دبا میں ناکام ہو رہے ہیں۔لہذا یہ ضروری ہے کہ قومی قیادت آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی مرتب کرے۔ تعلیم، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم، اور خاندانی منصوبہ بندی کو اولین ترجیح دی جائے۔ قوم کو تعلیم یافتہ اور ٹیکنالوجی سے لیس بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے ہم استحکام اور ترقی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر ابھی تک عدم اعتماد اور نفرت کا شکار ہے۔ ہر سیاسی لیڈر خود کو محبِ وطن سمجھتا ہے اور دوسروں کو غدار قرار دیتا ہے۔ ہمیں اس رویے سے باہر نکلنا ہوگا۔ پاکستان صرف کسی ایک جماعت یا گروہ کا نہیں، بلکہ تمام پاکستانیوں کا ہے۔ لہذا تمام سیاسی قوتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ایک متفقہ قومی ایجنڈے پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ایک اور اہم مسئلہ جو فوری توجہ کا طالب ہے وہ بلوچستان کا مسئلہ ہے۔ یہ محض سیکیورٹی یا عسکری نوعیت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، جسے بات چیت اور افہام و تفہیم سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں طاقت کے استعمال نے صرف دوریاں بڑھائی ہیں، اعتماد ختم کیا ہے۔ اب وقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں، خاص طور پر بلوچستان میں رجسٹرڈ پارٹیاں، وہاں کے عوام سے براہِ راست رابطہ کریں اور ان کے خدشات اور مطالبات کو سنجیدگی سے لیں۔بلوچستان کو آئینی اور قانونی ضمانت دی جانی چاہئے کہ ان کی خودمختاری، وسائل اور ثقافت کو تحفظ حاصل ہوگا، اور انہیں قومی دھارے میں برابری کی بنیاد پر شامل کیا جائے گا۔ جب تک بلوچستان کے لوگ خود کو پاکستان کا برابر کا شہری نہیں سمجھیں گے، تب تک نہ قومی یکجہتی ممکن ہے، نہ ترقی۔آخر میں، ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک رویہ ہے، ایک طرزِ فکر ہے، اور ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر فرد کی عزت، آزادی اور رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر ہم واقعی ایک مستحکم، خودمختار اور باوقار پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں جمہوریت کے ہر پہلو کا احترام کرنا ہوگا، اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر، روشن، اور منصفانہ نظام چھوڑنا ہوگا!!