چند دن قبل برطانوی نشریاتی ادارے( بی بی سی) کی ویب سائٹ پر ایک خبر چھپی تھی۔ اس کی سرخی میں دعویٰ تھا کہ افغانستان کے ’’امیر المومنین‘‘ کے ایک ’’قریبی شخص‘‘ نے بھارت کا خفیہ دورہ کیا ہے۔ سنسنی خیز سرخی کے باوجود میں یہ خبر پڑھنے کو مائل نہ ہوا۔ پاکستان کی بھارت کے ساتھ جنگی جھڑپیں ان دنوں سنگین سے سنگین ترہورہی تھیں۔ سنسنی خیز خبروں سے لطف اٹھانے کی مہلت میسر نہ تھی۔
مذکورہ خبر کے ساتھ چھپی تصویر مگر ذہن میں اٹک کررہ گئی ہے۔ بارہا خیال آتا رہا کہ بھارت کا خفیہ دورہ کرنے والے افغانی کو میں نے کہیں دیکھ رکھا ہے۔ پیر کی صبح اٹھا تو ہمارے تمام اخباروں نے شہ سرخیوں کے ساتھ یہ خبر لگائی ہوئی تھی کہ پاکستان کے نائب وزیر اعظم ووزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار چین جارہے ہیں۔ وہاں ان کے افغان ہم منصب بھی موجود ہوں گے۔ چین کی معاونت سے پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ساتھ دن بدن بڑھتی بدگمانیاں دور کرنے کے بعد باہمی تعاون کو یقینی، پائیدار اور دونوں ملکوں کے لئے مثبت بنانے کا ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کریں گے۔ بااعتماد سفارتی ذرائع سے مجھے یہ علم بھی ہوا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے چین ان دونوں ممالک کے مابین بڑھتی بدگمانیوں سے خوش نہیں۔ ان دونوں کو قریب سے قریب تردیکھنا چاہ رہا ہے۔ اس کی خواہش کو عملی صورت فراہم کرنے کے لئے پاکستان کے افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے چنے خصوصی سفیر صادق خان صاحب نے قابل عمل حکمت عملی تیار کررکھی ہے۔ چین میں ہوئی مشاورت کے بعد اسے بروئے کار لایا جائے تو پاک-افغان تعلقات کا نیا باب کھل سکتا ہے۔
ڈار صاحب کے دورہ افغانستان کی خبر پڑھی تو اچانک وہ تصویر یاد آگئی جو بی بی سی نے افغان رہ نما کے ایک معتمد کے ’’خفیہ‘‘ بھارتی دورے کے بارے میں چھاپی تھی۔ افغانستان اور پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں گزشتہ تین دہائیوں سے جو کھیل جاری ہے اس کے اہم کرداروں کی بابت میری سوئی کہیں اڑجائے تو دیرینہ ساتھی فخر کاکاخیل سے رجوع کرتا ہوں۔ ان دنوں موصوف مردان میں واقع اپنے آبائی گھر میں تقریباََ گوشہ نشین ہوئے ’’افغان جہاد‘‘ کے بارے میں کتابیں لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ خبریں اور کالم بھی رزق کمانے کے لئے فری لانسر کے طورپر لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے گفتگو ہوئی تو ترنت علم ہوگیا کہ بھارت کے ’’خفیہ‘‘ دورے پر گیا -ابراہیم صدر- ایک زمانے میں پشاور میں مقیم تھا۔ عالمی منشیات فروشوں سے منسلک چند مشکوک افراد سے موصوف کے تعلقات کئی افراد کو بہت کچھ سوچنے کو مجبور کرتے۔ ابراہیم کا اصل نام غالباََ خداداد خان ہے۔ ’’گوریلا جنگ‘‘ میں ملوث ہونے کی وجہ سے لیکن ایسے لوگوں کے ’’نام‘‘بدلتے رہتے ہیں۔ تعلق اس کا افغانستان کے صوبہ ہلمند سے ہے۔ یہ صوبہ پاکستان، افغانستان اور ایران کی سرحدوں کو مثلث کی طرح ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ دنیا بھر کو منشیات سپلائی کرنے کے حوالے سے یہ مثلث بہت بدنام ہے۔
پشاور میں قیام کے دوران ابراہیم صدر طالبان کے ’’امیر المومنین‘‘ اور پشاور کے ہمسایہ علاقوں سے ابھرے ’’حقانی برادران‘‘ کے مابین غلط فہمیوں کو بھڑکانے میں حصہ ڈالتا رہا۔ مشکوک حرکتوں کی وجہ سے بالآخر پشاور چھوڑنے کو مجبور ہوا اور بذریعہ ہلمند ایران چلا گیا۔ ایران میں قیام کے دوران اس نے وہاں کے صوبہ سیستان وبلوچستان میں مدرسوں کا جال بچھایا۔ ایرانی حکومت کی سرپرستی کے بغیر یہ جال بچھانا اور پھیلانا ناممکن ہے۔ قصہ مختصر ابراہیم صدر ’’کام کا بندہ‘‘ ہے۔ ان دنوں طالبان حکومت میں نائب وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز ہے۔ کابل میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اسے ’’امیر المومنین‘‘ نے حقانی برادران کی سرگرمیوں میں نگرانی رکھنے کو تعینات کررکھا ہے۔
حقانی برادران کے حوالے سے ابراہیم صدر کی حقیقت جوبھی رہی ہو بھارت اسے کسی نہ کسی صورت اپنے لئے ’’مفید‘‘ تصور کرتا ہوگا۔ اسی باعث طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود اسے ’’خصوصی جہاز‘‘ کے ذریعے بھارت آنے کی دعوت ملی اور اپنے بھارت میں قیام دوران وہ اس ملک کے اعلیٰ حکام سے بھی ملا۔ میں یہ بات اگرچہ سمجھ نہیں پایا ہوں کہ اس کا دورہ بی بی سی کی ویب سائٹس پر رپورٹ ہونے کے باوجود ’’خفیہ‘‘ کیوں رہا۔ بی بی سی نے اگر اسے ’’خفیہ ‘‘ لکھا تو شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ بھارت میں کے قیام کے دوران ابراہیم صدر کی بھارتی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور جیمز بانڈ کے مساوی سمجھے ’’جاسوس اعظم‘‘-اجیت دوول -سے بھی ایک طویل ملاقات ہوئی تھی۔ بی بی سی کی خبر نے اس ملاقات کے ذکر سے گریز کی وجہ سے ابراہیم صدر کے دورے کو ’’خفیہ‘‘ ٹھہرادیا۔ خیر بی بی سی صحافت کے اعتبارسے ’’ہاتھی‘‘ شمار ہوتا ہے۔ اس کی مرضی انڈا دے یا بچہ۔
میں نہیں جانتا کہ یہ محض اتفاق ہے یا نہیں۔ ابراہیم صدر کے دورئہ بھارت کے چند دن مگر بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے طالبان کے وزیر خارجہ کو طالبان حکومت تسلیم نہ کرنے کے باوجود ازخود فون ملایا۔ اس امر پر طالبان حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے پہلگام میں ہوئی دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ شکریے کے اظہار کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعاون کو مزید بڑھانے کی بات ہوئی۔
جس وزیر خارجہ سے بھارت کے وزیر خارجہ کی بات ہوئی ہے وہ ان دنوں چین میں پاکستانی وزیر خارجہ سے مذاکرات فرمارہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین اور بھارت اپنی ترجیحات کے تناظر میں طالبان حکومت سے رابطوں میں گہرائی لانے کے طلب گار ہیں۔ چین ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے تصور کو عملی شکل دینے کے لئے افغانستان کو گوادر سے دور وسطی ایشیاء کے ممالک سے ملانا چاہ رہا ہے۔ اس کی خواہش ہوگی کہ گوادر ترکمانستان سے لے کر ازبکستان وتاجکستان تک پھیلے تمام علاقوں کی حتمی بندر گاہ ثابت ہو۔ بھارت کی ترجیح اس کے قطعاََ برعکس ہے۔ اسے خبر ہے کہ طالبان کی حکومت میں واپسی کے بعد اس کے 20ہزار سے زیادہ ’’مجاہد‘‘ ان دنوں فارغ یا بے روزگار ہیں۔ ان میں سے خطیر سرمایہ کاری کی بدولت ایسا گروہ تیار کیا جاسکتا ہے جو ’’مجاہدانہ تجربے‘‘ کو پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چلانے کے لئے بروئے کار لائے۔ ابراہیم صدر جیسے کرائے کے مجاہد اور موقعہ پرست اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کے لئے بھارت کی توقعات بڑھ رہی ہیں۔ہمیں ان کے بارے میں چوکنا رہنا ہوگا۔