ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک امریکی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر برقرار رہے گا۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کے مابین ہاٹ لائن کھلی ہوئی ہے، اور چار دن جاری رہنے والے میزائل و فضائی حملوں کے دوران بھی اعلیٰ سطح کے عسکری رابطے جاری رہے۔ یہ عمل نہ صرف خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کا باعث بنا بلکہ اس بات کی بھی امید پیدا ہوئی کہ سرحد پر امن کا تسلسل برقرار رہے گا۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے ایک بار پھر فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچایا گیا، اور حسبِ روایت اس کا رخ پاکستان کی طرف موڑتے ہوئے الزام تراشی شروع کر دی گئی۔ داخلی طور پر بھارت میں جنگی جنون کو ہوا دی گئی، انتقام کی صدائیں بلند ہوئیں، اور پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ کو فروغ دیا گیا۔ اصل مقصد پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے مجرم کے طور پر پیش کرنا اور خطے میں کشیدگی کو بڑھانا تھا۔
بھارت نے اس بیانیے کی بنیاد پر فوجی کارروائی کی۔معصوم شہریوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ پاکستان کی فضائیہ، بری اور بحری افواج نے مثالی دفاعی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی چالیں ناکام بنا دیں۔ پاکستان نے نہ صرف چھ بھارتی طیارے مار گرائے بلکہ دشمن کی کئی اہم تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا۔پاکستان کی طرف سے انہی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ بھارت، جو اپنے جنگی جنون میں کامیابی کے خواب دیکھ رہا تھا، خود عبرت کی مثال بن گیا۔ شکست اتنی گہری تھی کہ اب بھارت کے اندر ہی سوال اٹھنے لگے ہیں کہ پلوامہ کا بدلہ لینے چلے تھے، لیکن خود ہی سبکی اٹھا لی۔
پاکستان کی دفاعی تیاری، پیشہ ورانہ مہارت اور قومی اتحاد نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ تینوں مسلح افواج نے مثالی کوآرڈینیشن کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا۔ اس کامیابی میں نہ صرف عسکری مہارت شامل تھی بلکہ پوری قوم کی دعائیں اور اتحاد بھی شامل تھا۔اس کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے نصرت بھی شامل ہوتی چلی گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی میں بحریہ کے افسران اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ جس طرح بری، فضائی اور بحری افواج نے دشمن کو بھرپور جواب دیا، اس نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر ریاست کے طور پر دوبارہ ثابت کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دشمن کی نیوی، خاص طور پر ایئرکرافٹ کیریئر ’وکرانت‘، 400 ناٹیکل میل کے اندر آنے کی جرأت نہیں کر سکا، جو پاکستانی بحریہ کی تیاریوں کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے جنگ بندی کروانے میں کردار ادا کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کیا۔
اس حوالے سے اگرچہ بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے پارلیمانی کمیٹی میں ٹرمپ کے کردار کی نفی کی اور کہا کہ فائر بندی صرف دو طرفہ تھی، لیکن اس مؤقف سے عالمی سطح پر اتفاق نہیں پایا جاتا۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کی حیثیت سے انتہائی مدبرانہ طرزِ عمل اپنایا اور ہر سطح پر بھارتی الزامات کو حقائق کی بنیاد پر رد کیا۔
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک وفد تشکیل دیا گیا ہے، جو بین الاقوامی سطح پر بھارت کے بیانیے کو بے نقاب کرے گا۔ اس دوران وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے چین کے دورے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی الزام تراشی کی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، اور عالمی برادری اب بخوبی جان چکی ہے کہ بھارت کا بیانیہ محض سیاسی مقاصد کے تحت کشیدگی بڑھانے کی ایک چال ہے۔
یہ تمام صورتحال ہمیں ایک مرتبہ پھر اس بنیادی حقیقت کی طرف لے جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازعہ کشمیر پر ہے، جو آج تک حل نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں بار بار جنگی کشیدگی کا باعث بنتا رہا ہے۔ جب تک کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خودارادیت نہیں دیا جاتا، نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا بڑی جنگ کے خطرے سے محفوظ نہیں ہو سکتی۔ایٹمی جنگ کے خطرے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔صدر ٹرمپ نے نہ صرف سیز فائر میں کردار اداکیا بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی کردار ادا کرنے کی بات کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر بھی مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور اس کے ممکنہ تباہ کن اثرات کا ادراک موجود ہے۔
بھارت کی جانب سے بار بار دو طرفہ مذاکرات کی رٹ لگانا اور پھر ان سے راہ فرار اختیار کرنا بھی اسکی بدنیتی کا مظہر ہے۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے قبل ہی بھارت اسے سبوتاڑ کرنے کے بہانے تراش لیتا ہے۔ یہ رویہ عالمی برادری سے متقاضی ہے کہ وہ ثالثی کی راہ اپنائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات کرے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آج بھی موجود ہے اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے۔ بھارت کی جانب سے اس مسئلے کو داخلی قرار دینا حقیقت سے فرار کے سوا کچھ نہیں۔ عالمی برادری کو نہ صرف اس صورتحال کا سنجیدگی سے ادراک کرنا ہو گا بلکہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ کیونکہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، تب تک سیز فائر، سفارتی بیانات یا عارضی جنگ بندیوں کا کوئی دیرپا فائدہ ممکن نہیں۔مسئلہ کشمیر کی موجودگی بڑی بلکہ ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
ہے۔