قرآن مجید فرقان حمید ہدایت اور نور کا ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم ؐپر نازل فرمایا۔ کلام پاک میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے لیے راہنمائی موجود ہے۔ قرآن مجید کا ادب و احترام کرنا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ قرآن مجید کے کچھ ظاہری اور باطنی آداب ہیں جن کواپناتے ہوئے ہم حقیقی طور پر اس کی برکات اور فوائد و ثمرات حاصل کر سکتے ہیں۔ ظاہری آداب میں سب سے پہلا ادب یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو بغیر وضو کے نہ چھوئیں۔جو بھی قرآن مجید کو ہاتھ لگا رہا ہے اس کا پاک صاف ہونا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اسے نہ چھوئیں مگر بغیر پاکی کے ‘‘۔ قرآن مجید کا دوسرا ادب یہ ہے کہ اس کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے اور اسکے الفاظ پر غورو فکر اور تدبر کیا جائے۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ جس نے تین دن سے کم وقت میں قرآن پڑھا وہ اسے نہیں سمجھا۔ ( ترمذی )۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی شخص کو جلدی جلدی قرآن مجید پڑھتے دیکھا تو فرمایا :’’ یہ شخص نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ خاموش ہے ‘‘۔
(احیا علوم الدین )۔یعنی جس رفتار سے وہ قرآن پڑھ رہا ہے قرآن کی آیات تو پڑھتا جا رہا ہے لیکن یہ تلاوت نہیں ہو رہی اور خاموش بھی نہیں ہے۔ یعنی ایسی تلاوت جس میں قرآن مجید کے تلفظ کی صحیح ادائیگی نہ کی جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :بیشک قرآن مجید غم سے لبریز نازل ہوا ہے سو جب تم میں سے کوئی قرآن پڑھے تو رویا کرے اور تم رو نہ سکو تو رونے والی حالت بنا لیا کرو۔ اور خوش الحانی سے اس کی تلاوت کرو ، پس جس نے حسن صورت اور نغمگی کے ساتھ قرآن کی تلاوت نہ کی وہ ہم میں سے نہیں۔( ابن ماجہ )۔
جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو اسے خاموشی کے ساتھ سننا بھی آداب قرآن میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ‘‘۔( سورۃ الاعراف )۔
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺنے دیکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرگوشی کے ساتھ تلاوت قرآن مجید کر رہے ہیں اور پھر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپ بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔
جب سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھم نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا اے ابو بکر تم آہستہ آواز سے قرآن کی تلاوت کیوں کر رہے تھے ؟آپ نے عرض کی یارسول اللہؐ میں اسے سناتا ہوں جس سے مناجات کرتا ہو ں۔ پھر نبی کریم ؐنے سیدنا فاروق اعظمؓ سے بلند آواز میں تلاوت کرنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کی یارسو ل اللہ ؐ میں اس لیے بلند آواز سے تلاوت کرتا ہوں کہ غافلوں کو سوئے ہوئے اٹھاتا ہوں اور شیطان بھگاتا ہو ں۔ اسکے بعد نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ اے ابو بکر تم تھوڑی سی آواز کو بلند کر لو اور اے عمر تم اپنی آواز کو تھوڑی سی پست کر لو۔( ابو دائود )۔