مرشد کا براہموس

بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے اپنی پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے عجب در عجب بیان دیا ہے۔ 
بھارت اپنی شکست چھپانے کیلئے دو قسم کے دعوے کرتا رہا ہے۔ یہ کہ ہم تو جنگ جیت رہے تھے لیکن کیا کریں، صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کا حکم دے دیا، ہم سرتابی کیسے کرتے سو جنگ بند کر دی۔ 
اس پر غل ہوا کہ مودی نے بھارت کی وجے امریکہ کو بیچ دی تو پینترا بدل کر بھارت نے یہ کہانی پھیلائی کہ پاکستان ایٹمی حملہ کرنے والا تھا، دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچانے کیلئے ہم نے جنگ بندی کر دی، اپنی وجے کا بلیدان کر دیا۔ 
لیکن وکرم مسری نے اس بریفنگ میں دونوں باتوں کی تردید کر دی۔ کہا، صدر ٹرمپ کا جنگ بندی میں کوئی کردار نہیں ، یہ ہمارا اپنا فیصلہ تھا اور یہ کہ پاکستان سے کسی قسم کے ایٹمی حملے کی دھمکی یا اس کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ 
گویا انہوں نے اقرار کر لیا کہ دراصل بہت مار پڑی، اس لئے ہم نے جنگ بندی کر دی۔ پاکستان کے دعوے کی اس سے زیادہ تصدیق اور کیا ہو گی۔ 
اب کیا فرمائیں گے ٹھکی ٹھکائی پارٹی کے یوٹیوبر جو ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ آھا، بھارت جیت گیا، وغیرہ۔
____
جو بات مرشد کو سمجھ میں نہ آ سکی، وہ اس کے چیلوں کو سمجھ میں آ گئی۔ یعنی مرشد کی مت ماری جا چکی، چیلوں کی مت میں ابھی کچھ ساہ ست ہے۔ کمال ہو گیا۔ 
ویسے ذرا یاد کر کے بتائیے، دنیا کے کسی ملک کی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ یا کسی بھی حلقہ ارادت منداں کے پیر نے کوئی حکم دیا ہو اور جواب میں اس کی پارٹی یا اس کے مریدوں نے کہا ہو کہ اچھا غور کرتے ہیں۔ نہیں سنا ہو گا، کبھی دیکھا بھی نہیں ہو گا، کہیں پڑھا بھی نہیں ہو گا۔ 
لیکن ہمارے ہاں یہ ہوا۔ 
مرشد نے کہا کہ فوراً وزیر اعظم اور سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرو۔ بجائے تعمیل کے، بجائے یہ کہنے کہ جو حکم سرکار، پارٹی کی طرف سے جواب ملا کہ اچھا غور کرتے ہیں اور یہ بات بھی سب نے نہیں کہی، کچھ نے کہا، بعد میں غور کریں گے، کچھ نے کہا رہنے بھی دیں مرشد! کچھ نے کہا ابھی وقت نہیں آیا، جب مناسب وقت آیا تب غور کریں گے۔ 
بس آپ ہم تصور ہی کر سکتے ہیں کہ یہ جواب سن کر مرشد پر کیا گزری ہو گی۔ 
چیلوں کو پتہ ہے تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکتی، پیش کر بھی دی تو کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ 92 ارکان تو سیدھے سارے چاہئیں اور ’’آزاد‘‘ ارکان میں سے 12 تو ایسے ہیں کہ خفیہ ہی خفیہ حکومت سے ’’گٹھ بندھن‘‘ کر چکے ہیں۔ پھر سو سے بھی زیادہ ووٹ کہاں سے آئیں گے۔ پھر آج کے حالات میں تحریک پیش کی تو بھد اڑے گی، بھارتی ایجنٹ ہونے کے طعنے میں الگ زور آ جائے گا۔ 
یہ بات چیلے سمجھ گئے۔ لیکن مرشد کیوں نہ سمجھ سکے۔ دراصل کہانی کچھ اور ہے۔ مرشد کو جیل میں یہ رپورٹیں مسلسل پہنچ رہی تھیں کہ مرشد کا گراف نیچے ہی نیچے جا رہا ہے، کسی اور کا اوپر ہی اوپر جا رہا ہے اور مرشد اپنی چیلہ پارٹی سمیت دن بدن غیر متعلق ، سے غیر متعلق تر ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ مرشد نے سوچا، پھر سے متعلق ہونے کے لیئے تحریک عدم اعتماد پیش کر دو، ایک بار تو یہ خبر منظر پر چھا جائے گی، ہنگامہ سا برپا ہو جائے گا اور بس، یہ سوچ کر مرشد نے براہموس داغ دیا، مطلب داغ ڈالنے کا حکم داغ دیا۔ 
جو بات مرشد کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ تحریک عدم اعتماد کا ہنگامہ تب ہوتا ہے جب جوڑ برابر کا ہو، میڈیا اور عوام ، سیاست کار اور سفارت کار سب یہ حساب کتاب لگانے میں جت جائیں کہ کس کے پاس کتنے ووٹ ہیں، تحریک کامیاب ہوگی کہ ناکام، کامیاب ہوئی تو کتنے ووٹوں سے، ناکام ہوئی تو کتنے ووٹوں سے۔ ادھر ارکان کا توڑ جوڑ کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یوں ہنگامہ سا برپا ہے کا منظر پیدا ہو جاتا ہے۔ 
مرشد کی پارٹی کے 80 ووٹ ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تو یہ 65 ،66 رہ جائیں گے۔ مرشد کی سادگی دیکھئے ، وہ ایسا ورلڈ کپ چاہتے ہیں جس میں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کا مقابلہ عیسیٰ خیل کرکٹ کلب کی ٹیم کرے۔ 
____
اسرائیلی فوج ہر دو منٹ بعد غزہ پر بمباری کر رہی ہے۔ کل کی بمباری میں ایک سو ، پرسوں 180 اور ترسوں پونے تین سو فلسطینی شہید ہوئے۔ زخمی ایک ہزار سے زیادہ ہیں۔ اسرائیل نے کہا ہے وہ پورے غزہ پر قبضے کا حتمی فیصلہ کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے، غذائی اشیاء ناپید ہیں، غزہ کے 20 لاکھ لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ پچھلی صدی میں تین کروڑ آبادی والے بنگال میں 20 لاکھ لوگ قحط سے مر گئے تھے ، غزہ میں 20 لاکھ آبادی میں سے 20 لاکھ مر جائیں گے۔ تہذیب کتنی ترقی کر چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے مزاحیہ انتباہ جاری کیا ہے کہ اسرائیل غزہ والوں کے قتل عام سے باز آ جائے ورنہ میری حمایت سے محروم ہو جائے گا۔ مطلب میں روٹھ جائوں گا۔ مطلب کا خلاصہ یہ کہ قتل عام کرتے رہو، میرا کیا جاتا ہے۔ 
مصر غزہ والوں کیلئے امدادی سامان جانے میں الگ سے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کئی ہزار سال کے بعد سے مصر پر پھر سے ’’فراعنہ‘‘ کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ رعمیسس ثانی کی شور زدہ ممی زندہ ہو کر اپنے تابوت سے نکل کر پھر سے تخت مصر پر قابض ہو گئی اور اس بار اس نے غزہ والوں کو ’’بنی اسرائیل‘‘ قرار دے دیا۔ اسرائیل سے ایک ہی فرمائش ہے کوئی غزہ والا بچنے نہ پائے۔ اس کی صدا کو نشر مکرّر کرنے کیلئے ایک خلیجی ریاست مستعد بیٹھی ہے جس نے فرمائی گئی ایک قدسی پیش گوئی درست ثابت کر دی کہ قیامت سے پہلے عربستان (کا کوئی علاقہ) پھر سے بت کدہ بنے گا۔

ای پیپر دی نیشن