پاکستان کی فتحِ مبین اور ہمارے بگڑے دانشوروں کی سینہ کوبیاں

اس میں تو اب کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی کہ گزشتہ ماہ 22 اپریل سے شروع ہونے والی بھارتی جارحیت کے محض جواب میں پاک فضائیہ اور پاکستان کی بری افواج نے اپنی بہترین حکمت عملی کے ساتھ بھارت کو ہر فیلڈ میں ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ بھارت نے اپنے ساختہ پہلگام ڈرامے کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے اس کا اپنے تئیں ناطقہ تنگ کرنے کے طے شدہ اقدامات پر 22 اپریل سے عملدرآمد کا آغاز کیا۔ یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا‘ پاکستان میں اپنے ہائی کمیشن کا سٹاف کم کرکے اپنے ملک واپس بلوالیا‘ پاکستان کے ساتھ تجارت ختم کر دی‘ پاکستانی شہریوں کو جاری کئے ویزے منسوخ کرکے مریضوں سمیت بھارت میں مقیم پاکستانی باشندوں کو بھارت سے نکل جانے کا حکم دے دیا اور عملاً پاکستان کے ساتھ جنگ کا ماحول گرما دیا۔ 
ان بھارتی شرانگیزیوں کے جواب میں پاکستان نے پہلگام حملے کے حوالے سے جو نپے تلے حقائق پیش کئے جنہیں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف چودھری نے ایک ایک کرکے اجاگر کیا‘ اسے عالمی میڈیا اور خارجہ و دفاعی امور کے ماہر تجزیہ کاروں نے درست تسلیم کیا اور بھارت سے سوال اٹھایا کہ اس نے پہلگام وقوعہ کے دس منٹ کے اندر اندر اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام کیسے لگا دیا اور جائے وقوعہ سے پندرہ 20 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم پولیس تھانے میں دس منٹ کے اندر اندر ایف آئی آر درج کرکے اس میں پاکستان کو بطور ملزم کیسے نامزد کر دیا جبکہ اسکی متعلقہ ایجنسی وقوعہ کے چار دن بعد بھی وقوعہ کے بارے میں اپنی تفتیش مکمل نہیں کر سکی۔ خود بھارت کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا مگر مودی سرکار نے اپنے پہلے سے طے کردہ ایجنڈے کے تحت اپنے پہلگام والے فالس فلیگ اپریشن کو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کیلئے استعمال کرنا تھا ‘اس نے ایسا ہی کیا اور چھ اور سات مئی کی درمیانی شب  کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہاولپور‘ مریدکے‘ مظفرآباد سمیت پاکستان کے متعدد شہروں کی سول آبادیوں پر میزائل برسا دیئے اور پھر اسرائیلی ساختہ ڈرونز پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کرنا شروع کر دیئے۔ پاکستان نے اسکے جواب میں جو کارروائی کی‘ وہ بھارت کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس کارروائی میں فرانس سے لئے گئے بھارت کے تین رافیل جہازوں سمیت پانچ جنگی جہاز تباہ ہوئے اور پاکستان میں داخل ہونے والا ہر بھارتی ڈرون گرالیا گیا۔ پاکستان کی ان جنگی کامرانیوں کا باقاعدہ تصدیق کے ساتھ عالمی میڈیا پر بھی اعتراف کیا گیا اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے باقاعدہ نقشے کے ساتھ بھارت کے جنگی جہاز اور ڈرونز گرنے کی تصدیق کی۔ 
بھارت نے 8 اور 9 مئی کو بھی پاکستان کی فضائی حدود میں اپنے ڈرونز داخل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اسکے ہر ایکشن کا پاکستان کی مستعد و چوکس سکیورٹی فورسز کی جانب سے جواب اس کا ہر ڈرون گرا کر دیا گیا۔ انہی دو دنوں میں بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر پاکستان کی چیک پوسٹوں اور سول آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا تو اس کا جواب پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے اس شدت کے ساتھ دیا گیا کہ تصدیق شدہ حقائق کے مطابق اس وقت بھی بھارت کی 200 کے قریب چیک پوسٹوں پر متعلقہ علاقوں سمیت پاکستان کا قبضہ ہے اور مقبوضہ وادی کے یہ علاقے اس وقت پاکستان کا حصہ بن چکے ہیں۔ بھارت کے طے شدہ جنگی جنون کی انتہاء￿ 10 مئی کی رات بارہ بجے کے بعد کی گئی جب اس نے پاکستان کے تین ایئربیسز پر میزائل برسائے۔ بے شک بھارت کے اس اچانک حملے میں پاکستان کے ایک ایئربیس کو نقصان پہنچا جہاں ایک ایئرکموڈور سمیت پاک فضائیہ کے متعدد جوان شہید بھی ہوئے اور ہینگر پر کھڑے ایک جہاز کو معمولی نقصان بھی پہنچا جس کی تمام تر تفصیلات سے بھی جنرل احمد شریف چودھری نے اپنی پریس بریفنگ میں آگاہ کر دیا ہوا ہے۔  مگر اس اچانک بھارتی حملے کا پاکستان کی جانب سے جو جواب دیا گیا‘ اس نے بھارت کے سائبر سسٹم سمیت اس کے پورے دفاعی نظام  کو برباد کرکے رکھ دیا۔ اس بھارتی تباہی کا اعتراف عالمی میڈیا تو کر ہی رہا ہے‘ خود بھارت کے میڈیا اور اسکی لوک سبھا کے اندر ابھی تک کھلبلی مچی ہوئی ہے اور بھارت کا گودی میڈیا تک جو پہلے اچھل کود کرتا ہوا کراچی‘ لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں کی مبینہ بھارتی حملوں میں تباہی کے نقشے کھینچ رہا تھا‘ مودی سرکار کے لتے لیتا ہوا نظر آیا۔ بے شک اس بھارتی تباہی و بربادی سے ہی، جو پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر ہی رونما ہو گئی‘ مودی سرکار پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور سیزفائر کی درخواست لے کر امریکی صدر ٹرمپ کے چرنوں میں جا بیٹھنے پر مجبور ہوئی چنانچہ ٹرمپ نے موقع غنیمت جان کر اسی وقت پاکستان بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال لیا جبکہ بھارت اپنی خفت مٹانے کیلئے اب ٹرمپ کو کسی دولہا کی شادی میں ’’عبداللہ دیوانہ‘‘ قرار دے رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی تان کھینچے جا رہا ہے حالانکہ مودی سرکار کو بالخصوص کشمیر اور پانی کے مسائل پر مذاکرات کی میز پر لانا بھی پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے بھارت کی جانب سے ہڑپ کئے گئے کشمیر کا ایشو تو پھر سے زندہ ہوا ہے۔ 
یہ تمہید باندھنے کا میرا مقصد ایک سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا سیل کے ان ’’دلاوروں‘‘ اور بعض بگڑے ہوئے دانشوروں‘ جن کی اکثریت ملک سے باہر بیٹھی ہے‘ کی جانب سے سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف اور بھارت نواز مہم کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔ متعلقہ سیاسی جماعت کے ارکان اور اسکے حامی عناصر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے ان الفاظ کو بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق اس جماعت کی ساکھ بحال کرانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں کہ پاکستان بھارت اس جنگ میں پاکستان کی یوتھ نے سوشل میڈیا کے محاذ پر بھارتی پراپیگنڈے کو ناکام بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بے شک پاکستان کی یوتھ اپنی دھرتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس نے جعلی بھارتی پراپیگنڈہ کا سوشل میڈیا پر پھلکا اڑایا ہے۔ مگر کیا یہ ساری یوتھ اسی جماعت سے وابستہ ہے جس کا سوشل میڈیا سیل آج بھی پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور بھارت کے ساتھ چھ روزہ جنگ میں بالخصوص 10 مئی کے چار گھنٹے کے دوران بھارتی جنگی جنون کو خاک میں ملانے والی پاک فضائیہ کی عظیم کامرانی کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور پاکستان کی بری افواج اور پاک فضائیہ میں تفریق پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
میرے ایک پروفیسر اور آرٹسٹ دیرینہ دوست کو پاک فضائیہ کی کامرانی پر لکھی گئی میری ایک غزل‘ جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے‘ ایک آنکھ نہیں بھائی اور انہوں نے وٹس ایپ اور میسنجر پر مجھے کوسنے دیتے ہوئے سات سے دس مئی تک کے معرکے میں افواج پاکستان کی بھد اڑانے‘ بھارت کے "فتح یاب" ہونے کے اپنے ساختہ ثبوت پیش کرنے اور افواجِ پاکستان  کے خلاف زہر اگلے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور مخصوص جماعت کے بلیم گیم والے روایتی کلچر کے عین مطابق مجھ پر اپنی جیب گرم رکھنے کا الزام بھی دھر دیا چنانچہ میں نے بھی ان حضرت کی طبیعت صاف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان حضرت اور اس قبیل کے کئی دوسرے عناصر کو میں اپنی  فرینڈز لسٹ سے باہر دھکیل چکا ہوں۔ مجھے ان عناصر کی بے خوف ڈھٹائی کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ جب پورے عالمی میڈیا پر اور خود بھارت کے اندر دفاع و خارجہ امور کے ماہرین اور دس مئی سے پہلے تک پاکستان کیخلاف پھدکنے والے بھارتی صحافی اور دانشور بھی پاکستان کی جانب سے بھارت کا دفاعی نظام مفلوج کئے جانے کا اعتراف کر رہے ہیں اور مودی کو آئینہ دکھاتے ہوئے بھارت کی شکست تسلیم کر رہے ہیں تو ہمارے اپنے بعض خودساختہ لبرل اور پاکستان کیخلاف خبث باطن رکھنے والے دانشوروں اور مخصوص جماعت کے کارکنوں کو سات سے دس مئی تک کے معرکہ میں دشمن پر پاکستان کی عظیم کامرانیاں کیوں نظر نہیں آرہیں اور وہ پاکستان کو ناکام ثابت کرنے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں۔
…………………… (جاری) 

 ایسے ہی میرے ایک وکیل دوست بھی سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹوں کے ذریعے پاکستان اور بانیان پاکستان کی بھد اڑانے کے شغل میلے میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کے قیام کے طریق کار (دوقومی نظریے) کو تسلیم کرنے سے تو سرے سے  انکاری ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا اور انکے بچوں کا مستقبل تو بہرحال پاکستان ہی سے وابستہ ہے اور ہم نے یہیں پر جینا مرنا ہے۔ میری ادب کے ساتھ ان سے یہی گزارش ہوتی ہے کہ پاکستان قائم اور سلامت رہے گا تو ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل بھی محفوظ رہے گا اس لئے وہ کم از کم پاکستان کی سلامتی کی تو فکر اور پاسداری کرلیا کریں مگر وہ پاکستان‘ اس کے بانیان،  اسکے نظریے اور سسٹم میں کیڑے نکالنے اور بھارت کی خوبیاں بیان کرنے کا "شغل" جاری رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا یہاں پاکستان‘ اسکے نظریے‘ اسکے بانیان اور اسکے اداروں (بطور خاص افواج پاکستان) کے خلاف کوئی بات کرنے کی آزادی ہے۔ حضور! آپ اپنے فیس بک پیج پر پوری آزادی کے ساتھ ایسی باتیں لکھ رہے ہیں تو پاکستان میں اس کیلئے آزادی کا بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ بھارت نے تو مودی سرکار کے موقف کیخلاف بولنے پر اپنی ایک معروف خاتون دانشور کی بھارتی شہریت تک منسوخ کر دی ہے اور ایسے کئی بھارتی دانشوروں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ تو حضور! آپ کو تو اپنی اس آزادی پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ آخر میں دیس کے شاہینوں کے نام لکھی اپنی  تازہ غزل پیش کر رہا ہوں جو چند روز قبل پاکستان رائٹرزگلڈ پنجاب کے اجلاس میں سنائی گئی۔ یہ اجلاس پاکستان کی فتح مبین پر پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے منعقد کیا گیا تھا۔ 
میرے دیس کے شاہینو!
میرے دیس کے شاہینو تم جاگتے ہو‘ ہم سوتے ہیں
ایسی دھاک بٹھائی تم نے‘ دشمن بیٹھ کے روتے ہیں
آج فضا?ں کے تم ایسے بادشاہ بن کر ابھرے ہو
مودی اور ٹرمپ اب دیکھو پا?ں تمہارے دھوتے ہیں
پوری قوم ہے نازاں تم پر‘ دیس کے تم رکھوالے ہو
ساری دنیا بول اٹھی ہے‘ شاہیں ایسے ہوتے ہیں
رافیلوں پر مان تھا جن کو‘ ان کی ہوائیاں اڑتی ہیں
فتح کے ضامن میزائل اب پچھلے داغ بھی دھوتے ہیں
جنگ بندی پر آکر تم نے اپنی جان چھڑائی ہے
گیدڑ بھبکی والے آخر غم کے ہار پروتے ہیں
اپنے معرکہ￿£￿  حق نے تو دشمن کو یوں ڈھیر کیا
موذی سارے اب آنکھوں پر باہیں دھر کے روتے ہیں
امن کی بات کرو اور بیٹھ کے سلجھا? ہر مسئلے کو
ورنہ آسی جنگ و جدل کے راستے کھوٹے ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن