بدھ‘  23  ذیقعد  1446ھ ‘  21 مئی 2025 ء

دوران زچگی مرنے والی اورکم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔
 بات اسلام میں کم عمری کی شادی یا ادھیڑ عمر خواتین کی شادی کی نہیں ہے‘ اس دین فطرت میں تو بیوہ عورتوں سے بھی شادی کی تحریک ملتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر غور سے سوچا جائے جس بچی کی اپنی عمر گھر کے آنگن میں کھیلنے کودنے کی ہو‘ کیا وہ خاتونِ خانہ کی ذمہ داریاں اٹھا سکتی ہے‘ کیا وہ دوسرے گھر جا کر آسانی سے ایڈجسٹ ہو سکتی ہے‘ کم عمری کی وجہ سے ویسے بھی جذباتی مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ اس عمر کی بچیاں یہ سب ذمہ داریاں انجام دینے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اب کیا کیا جائے کہ معاشرے کے حالات غربت اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے اکثر والدین جن کا تعلق نیم خواندہ یا پسماندہ علاقوں سے ہوتا ہے‘ وہ غیرت کے نام پر کوشش کرتے ہیں کہ جلد از جلد کسی نہ کسی طرح بیٹی کے بوجھ سے آزاد ہوں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بے جوڑ عمر رسیدہ افراد سے کم عمر 12 یا چودہ سال کی کئی جگہ تو اس سے بھی کم عمر بچی کو چند ہزار یا لاکھ روپے کے عوض بیاہ دیتے ہیں کہ اب وہ جانے اور اس کا شوہر۔ پھر اسکے بعد سسرال میں جو تماشا ہوتا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ یہ جو کاروکاری‘ غیرت کے نام پر قتل‘ گھر سے فرار کی کہانیاں ہیں‘ یہ سب ایسے ہی حالات میں جنم لیتی ہیں۔ 14 سال کی بچی کا ماں بننے کا عمل بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ عام صحت مند عورت اس تکلیف کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہے‘ باقی تو چھوڑیں‘ غذائی قلت‘ خون کی کمی اور بے شمار صحت کے مسائل کا شکار بچی کیا بچہ جنے گی۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جہاں ہر سال لاکھوں لڑکیاں زچگی کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں۔ تمام باتوں سے ہٹ کر اگر صرف اس پہلو پر توجہ دی جائے تو واقعی جس عمر میں شناختی کارڈ نہیں بنتا‘ وہاں ووٹروں میں نام درج نہیں ہوتا‘ میٹرک کی سند نہیں ملتی‘ ایسی عمر میں کیا ایک بچی اچھی بیوی‘ اچھی بہو‘ اچھی ماں کا کردار ادا کر سکتی ہے۔نہیں جبھی تو لڑکیاں آج بھی یہی دعا مانگتی ہیں کہ۔
اگلے جنم میں ہمیں بِٹیا نہ کیجو۔
پاکستانی باصلاحیت ہیں‘ حیرت انگیز چیزیں بناتے ہیں‘ ٹرمپ۔ 
بے شک صدر ٹرمپ ایک جوہری کی نگاہ رکھتے ہیں‘ جبھی تو وہ پاکستانیوں میں چھپے ٹیلنٹ کو دیکھ پائے اور اسکی تعریف کی۔ ابھی تو انہوں نے زیادہ کچھ دیکھا ہی نہیں‘ ورنہ ہمارے ان ماہر باصلاحیت سائنس دانوں اور انجینئرز کے کارنامے ملاحظہ نہیں کئے جو بنا پٹرول کے صرف پانی کی مدد سے کاریں چلاتے ہیں۔ جہاز اڑاتے ہیں‘ اگر یہ سب کچھ ٹرمپ جی دیکھ لیں تو یقین کریں امریکہ میں ایک نئی علیحدہ ریاست قائم کرکے وہاں ان تمام پاکستانی ماہرین اور سائنس دانوں کو لا کر آباد کریں اور چند سالوں میں دنیا دیکھے گی کہ یہ صوبہ کس طرح پورے امریکہ کو ترقی کی معراج پر پہنچاتا ہے۔ خود امریکی اس پر رشک کرتے نظر آئیں گے۔ ایک دفعہ امریکہ ذرا ہمارے ماہرین کی سرپرستی تو کرے‘ پھر دیکھیے گا کہ ہم کتنے پہنچے ہوئے ہیں۔ ہمارا تو ایک فراڈی شف شف پیر ہی ہزاروں کے مجمع میں صرف سپیکر پر پھونک مارتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اب اندھا دیکھے گا۔ لنگڑا چلے گا‘ بہرہ سنے گا اور گونگا بولے گا۔ اگر ایسے روحانی فراڈی عالم بھی وہاں جا بسے تو ہو سکتا ہے امریکی ہسپتال خالی ہو جائیں اور ڈاکٹر ہاتھ پر ہاتھ دھرے شف شف کے مرنے کی دعائیں مانگتے نظر آئیں۔ یہ تو ہم پاکستانی کسرنفسی سے کام لیتے ہیں‘ ورنہ بنا ایندھن کے، پاور کے راکٹ اڑانا طیارے چلانا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ بس ذرا ٹرمپ جی کھلے دل کے ساتھ ہمارے جوانوں کو موقع تو دیں‘ وہ امریکہ کو سپرپاور سے مہا سپرپاور بنا کر اسے دنیا سے اٹھا کر مریخ پر نہ پہنچا دیں تو پھر جو مرضی کہنا۔ ہم خود پہنچیں یا نہ پہنچیں‘ دوسروں کو ضرور آسمان تک پہنچانے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ حیرت انگیز اشیاء بنانے سے لے کر دنیا کو الو بنانے تک ہم اس فن میں یکا و تنہا ہیں۔ یہ ہمارا دعویٰ نہیں‘ حقیقت ہے جس کا اظہار اب امریکہ بھی کر رہا ہے۔ 
کوئٹہ میں الیکٹراک ٹیکسیاں چلانے کی تجویز۔
 جہاں پیدل چلنا مشکل ہو‘ وہاں ایسی بات مذاق کہلائے گی۔ لگتا ہے حکومت بلوچستان کو ازخود ہر جگہ سینگ پھنسانے کا شوق چرایا ہے۔ چند لاکھ کی آبادی والے شہر کی موجودہ آبادی کم از کم 20 لاکھ کو چھو رہی ہے‘ وہاں کی سڑکیں جو 30 سال پہلے تک کھلی ڈلہی محسوس ہوتی تھیں‘ اب وہ تنگ گلیاں بن چکی ہیں اور بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ ان گلی نما سڑکوں پر بمشکل موٹرسائیکل چل سکتی ہے‘ ہزاروں کی تعداد میں رنگ برنگے رکشے بھی چل رہے ہیں‘ جن کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہتی ہے‘ شور و غل مچا رہتا ہے۔ میزان چوک سے گوالمنڈی چوک‘ بیکانگی روڈ سے نچاری روڈ اور اندرون شہر سے ریلوے یا وفاقی کالونی‘ بولان میڈیکل کالج یا سریاب روڈ تک جانے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ اذیت الگ اٹھانا ہوتی ہے۔ ان حالات میں وہاں رکشے بند کرکے الیکٹرک ٹیکسیاں چلانے کا پروگرام چلے گا کہاں؟ کیا یہ ٹیکسیاں ہوا میں اڑیں گی‘ سڑکوں پر تو پیدل چلنا محال ہو چکا ہے‘ اور پھر یہ رکشے والے کیا ایسا ہونے دیں گے جن کے روزگار پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ تو آبیل مجھے مار والی بات ہے۔ جس سے دنگا فساد جنم لیتا ہے۔ یا تو پہلے کوئٹہ میں بڑی چوڑی سڑکیں تعمیر کی جائیں‘ جہاں ان ٹیکسیوں کی علیحدہ لین ہو‘ جو لوگ رہنے نہیں دینگے‘ یا پھر شہر کے اوپر پل بنا کر اس رنگ روڈ پر یہ گاڑیاں چلائی جائیں۔ یہ تو مکمل ناممکن ہے۔ اس سے بہتر ہے گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سختی سے کنٹرول کیا جائے‘ ڈرائیونگ لائسنس اور سرٹیفکیٹس لازمی قرار دیں‘ سڑکوں کی حالت بہتر ہو‘ تو شاید ٹریفک کے مسائل کے حل میں کوئی بہتری کی راہ نکل آئے۔ ورنہ ایسے بیانات صرف ہڑتال کی راہ نکالتے ہیں۔ 
لاڑکانہ میں سکول کی عمارت کو پیاز کا گودام بنا لیا گیا۔
 ہو سکتا ہے اس سکول کے ہیڈماسٹر یا علاقے کی انتظامیہ نے مل بیٹھ کر یہ مشترکہ فیصلہ کیا ہو کہ گرمیوں کی طویل چھٹیوں میں کون سا بند سکولوں میں تعلیم و تدریس کا کام ہوتا ہے تو کیوں نہ اس سکول کو بطور گودام کرایے پر دیکر وہاں کرایہ وصول کرکے ذرا شام کو مرغ مسلم‘ تیتر بٹیر منگوا کر دوستوں کے ساتھ وقت گزارا جائے۔ آج جہاں دیہی علاقوں میں طالب علموں کی جگہ گائے بکریاں‘ بھینسیں‘ مٹر گشت کرتی ہیں‘ اساتذہ کی جگہ گھوڑے تو اب کیا کریں. ہم عوامی نام لکھ کر اساتذہ کو ناراض تو نہیں کر سکتے۔ وہ آرام فرماتے ہوں‘ پورا سکول طویلا یا اصطبل بنا ہو‘ جگہ جگہ غلاظت بکھری ہو‘ دیواروں پر اپلے تھاپ کر بچوں میں تجریدی آرٹ کا شعور بیدار کیا جاتا ہو‘ وہاں قلم کتاب کاپی اور بستہ لے کر آنے کی زحمت کون کرے اور کیوں کرے۔ یہ بیماری پورے ملک میں عام ہے‘ دیہی علاقوں میں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ یہ سرکاری سکول جرائم پیشہ افراد کیلئے پناہ گاہ ہوتے ہیں‘ نشئی طیارے یہاں آکر لینڈ کرتے ہیں۔ چوری چکاری کے عادی یہاں دروازے کھڑکیاں اینٹیں تک چرا کر لے جاتے ہیں۔ شاید اس لئے ان علاقوں کے سکولوں میں فرنیچر اور پنکھے نہیں دیئے جاتے کہ چوری ہو جائیں گے۔ ہم جو ہر وقت وہ بھی اچھی تعلیم کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں‘ کیا ان سکولوں کی حالت زار سے بے خبر ہیں جن کی بوسیدہ مخدوش گرنے والی عمارتوں میں آج بھی لاکھوں غریب بچے زمین پر بیٹھ کر حروف تہجی اور ہندسوں کی صرف پہچان کر پاتے ہیں اور والدین خوش ہوتے ہیں کہ چلو بچے پڑھنے سکول گئے ہیں جہاں استاد نام کا کوئی وجود ہی نہیں ملتا۔ اگر ملے بھی تو ہفتہ میں ایک آدھ دن بچوں میں گالیوں اورڈنڈے کے زور پر علم منتقل ہوتا نظر آتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن