زاویے… میاں محمود
Myan.Mehmood @gmail.com
پاکستانی معیشت اس وقت غیر معمولی دبائو کا شکار ہے۔ صنعتی پیداوار میں کمی، مہنگائی کی بلند شرح، کرنسی کی گرتی ہوئی قدر اور سیاسی و معاشی غیر یقینی نے کاروباری سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ ان چیلنجز کے دوران، ٹیکس نظام کی خامیوں اور ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر کاروباری حلقوں میں "نو ٹیکس پالیسی" ایک علامتی اصطلاح بن چکی ہے جو ایف بی آر کے غیر مثر اور بعض اوقات خوف پیدا کرنے والے رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ اس اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ عملی طور پر ایف بی آر کا نظام نہ صرف ناکارہ ہو چکا ہے بلکہ یہ رجسٹرڈ کاروباری طبقے کو سزا اور غیر رجسٹرڈ کاروباری افراد کو انعام دیتا دکھائی دیتا ہے۔کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی موجودہ ٹیکس پالیسیوں نے ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کو سزا بنا دیا ہے۔ رجسٹرڈ کاروباری افراد کو بار بار نوٹسز، ہراسانی، اور جرمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ جو کاروباری ادارے مکمل طور پر غیر رجسٹرڈ ہیں، وہ خاموشی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، کراچی، سیالکوٹ اور دیگر صنعتی شہروں کے تاجر بارہا میڈیا اور تجارتی تنظیموں کے پلیٹ فارمز پر یہ شکایت کر چکے ہیں کہ ایف بی آر کا رویہ کاروبار دوست نہیں بلکہ خوفزدہ کرنے والا ہے۔ ان کے مطابق ٹیکس سسٹم نہ صرف پیچیدہ اور ناقابل فہم ہے بلکہ ٹیکنالوجی کا درست استعمال بھی نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے باعث ٹیکس ریٹرن داخل کرنا، ریفنڈ حاصل کرنا یا کسی قانونی پیچیدگی سے بچنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کاروباری طبقہ ٹیکس دینے کے خلاف نہیں، لیکن ان کے تحفظات اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں جو شفافیت، مساوات اور ترغیب سے خالی ہے۔ کئی تاجروں کا کہنا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ میں آنا چاہتے ہیں، لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایف بی آر صرف انہی کاروباروں کو نشانہ بناتا ہے جو پہلے سے سسٹم میں موجود ہیں، تو وہ رجسٹر ہونے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے ملک میں ڈاواں ڈول سسٹم پروان چڑھ رہا ہے ایک طرف رجسٹرڈ کاروباری طبقہ جبکہ دوسری طرف غیر رجسٹرڈ افراد ہیں جو مسلسل فوائد حاصل کررہے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں30 سے 35 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں، جبکہ آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معیشت کا کتنا بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہرہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی موجودہ پالیسیوں نے اس خلا کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اگر نظام کو سادہ، واضح اور شفاف بنایا جائے، اور کاروباری افراد کو اعتماد دیا جائے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا، تو لاکھوں لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ میں شامل ہو سکتے ہیں۔کاروباری طبقے نے متعدد تجاویز بھی دی ہیں جن پر اگر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو ٹیکس نظام میں بہتری آ سکتی ہے۔ سب سے پہلے، ایف بی آر کو چاہیئے کہ وہ زبردستی کی بجائے ترغیب (incentive-based approach) پر توجہ دے۔ ٹیکس دہندگان کے لیے خصوصی مراعات، رعایتی قرضے، حکومتی پروجیکٹس میں ترجیحی سلوک اور اعزازی اسناد جیسے اقدامات متعارف کروائے جائیں۔ دوسرا، ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کے عمل کو مکمل طور پر ڈیجیٹل، سہل اور عوام دوست بنایا جائے تاکہ عام کاروباری شخص بھی بغیر کسی معاونت کے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکے۔ تیسرا، ہراسانی، چھاپے مارنے، یا بلاجواز جرمانوں کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ ٹیکس دہندگان کا اعتماد بحال ہو۔یہ بھی ضروری ہے کہ ایف بی آر خود کو ایک اصلاحاتی ادارے کے طور پر پیش کرے نہ کہ ایک 'پکڑ دھکڑ' کرنے والی ایجنسی کے طور پر۔ اس کے لیے ایف بی آر کے عملے کو بھی جدید تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ عوام سے پیشہ ورانہ اور شائستہ انداز میں معاملات کریں۔ مزید یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک منصفانہ اور جامع معاشی پالیسی مرتب کرے جو کاروباری آسانیوں، ٹیکس اصلاحات اور صنعتی ترقی کو یکجا کرے۔'نو ٹیکس پالیسی' ایک عام اصطلاح ضرور ہے لیکن یہ دراصل ایف بی آر کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ اگر حکومت واقعی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے کاروباری طبقے کے خدشات کو سننا، سمجھنا اور حل کرنا ہوگا۔ ایک ایسا نظام جس میں شفافیت، اعتماد، اور سہولت موجود ہو، نہ صرف ٹیکس نیٹ کو وسعت دے سکتا ہے بلکہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ورنہ موجودہ حالات میں کاروباری طبقہ مزید کنارہ کش ہوتا جائے گا اور معیشت مزید غیر دستاویزی ہو جائے گی جو ملک کے لیے خطرناک صورتحال ہے۔