کیا آسٹرلوجسٹ’’غیب‘‘ کا علم جانتے ہیں؟

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران

بچپن سے سنتا آیا تھا کہ نصابی و درسی علوم کے علاوہ دنیا میں ستاروں کا بھی علم ہے۔ اس علم کے ذریعے ’’غیب‘‘ کا احوال معلوم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میرا ایمان ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہو گا، کیا ہونے والا ہے؟ صرف وہی ظاہر و باطن  کی تمام حقیقتوں کا جاننے والا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا پھر بھی دعویٰ ہے کہ نا صرف ’’غیب‘‘ کا علم رکھتے ہیں بلکہ برجوں کی مدد سے ماضی، حال اور مستقبل تک کا احوال بتا سکتے ہیں۔
یہ لوگ جو اس نوعیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آسٹرولوجسٹ کہلاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’آسٹرولوجی‘‘ ایک قدیم علم ہے جسے بین الاقوامی طور پر بھی مستند مانا گیا ہے۔ اس کے ماہر امریکہ سمیت، یورپین اور ایشیائی ملکوں میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ان کی خاصی تعداد موجود ہے۔ جو لاہور اور کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے۔
کچھ ایسے آسٹرولوجسٹ بھی ہیں ، جنہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ انہیں یہ شہرتِ د وام دینے میں ڈیجیٹل میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ جیسے ہی نیا سال آتا ہے ان کی پیش گوئیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ زیادہ پیش گوئیاں سیاست اور سیاستدانوں کے متعلق کی جاتی ہیں۔ دیگر شعبوں کے لوگ بھی ان پیش گوئیوں میں شامل کر لیے جاتے ہیں جو سپورٹس اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے قابل ذکر کھلاڑی اور اداکار ہوتے ہیں۔
کسی بھی آسٹرلوجسٹ کی پیش گوئیاں کتنی سچ اور کتنی جھوٹی ہوتی ہیں۔ اس کالم میں یہ سراغ لگانے اور اس حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
کچھ لوگ پسند کی شادی میں رکاوٹ، محبت میں ناکامی، میاں بیوی میں لڑائی جھگڑا یا دیگر درپیش مسائل کی وجہ سے پریشان ہوں تو ایسے میں کسی فقیر یا آسٹرلوجسٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن کم ہی دیکھا ہے کہ پیرخانے یا کسی آسٹرلوجسٹ سے انہیں کوئی فیض حاصل ہوا ہو۔
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ نئی انارکلی کی فٹ پاتھ پر پرانی کتابیں کھنگالتے ہوئے دست شناسی کی کتاب پر نظر پڑی۔ یہ پاک و ہند کے نامور دست شناس میر بشیر کی کتاب ’’رموزِ دست شناسی‘‘ تھی۔ کتاب خرید لی اور گھر جا کر اسے کئی بار بڑی دلچسپی سے پڑھا۔ اس کے بیشتر نکات یاد بھی ہو گئے۔ بعد میں پاکستان میں دست شناسی پر جتنا مواد میسر تھا، پڑھا، ریسرچ بھی کی۔ چینی پامسٹری پر ایک ای بک ملی جس نے دست شناسی کے کئی نئے زاویوں سے روشناس کرایا۔ رفتہ رفتہ یہ شوق اس لیے خود ہی مرجھا گیا کہ اس علم کے ’’سطحی‘‘ ہونے کا اندازہ ہو گیا تھا۔ پروفیشنل دست شناس اس علم کا بیڑہ غرق کر چکے تھے۔ میری طالب علمانہ رائے میں دست شناسی کے علم کی بھی کچھ محدودات (Limitations)ہیں۔ علم نجوم یا آسٹرولوجی یہ سب ایک خاص سطح تک ہی کارآمد ہیں۔ کچھ چیزیں البتہ ان میں حیران کن ہیں۔ انسانی شخصیت کی بعض ایسی باتیں بتائی جا سکتی ہیں جو انسان کو حیرت زدہ کر دیں۔ بچپن میں لگی کوئی چوٹ ، لڑکپن میں گزرنے والا کوئی سانحہ، جوانی کا ایسا سیکرٹ جو کم لوگوں کے علم میں ہو، انسانی شخصیت کا ایسا تجزیہ، خوبیوں، خامیوں کا جائزہ___یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں ان علوم کے ماہرین کسی حد تک بتا سکتے ہیں۔ درحقیقت یہی ان کے ہتھیار ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی دست شناس یا ماہر علم نجوم کسی کے ماضی کے چھپے ہوئے گوشوں کے بارے میں بتا دے تو کلائنٹ کی حیرت فطری ہو گی۔ اسی طرح ہاتھ یا ہاتھ کا پرنٹ دیکھ کر، یا تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش دیکھ کر انسانی شخصیت کا مکمل جائزہ پیش کیا جائے تو یہ بات سائنسی اور منطقی اعتبار سے سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ ان باتوں سے دست شناس، آسٹرولوجسٹ یا اس قسم کے دیگر علوم کے ماہرین اپنے کلائنٹس کو متاثر کرکے منہ مانگے پیسے وصول کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ مستقبل کے بارے میں ان کی بتائی گئی بہت سی باتیں درست ثابت نہیں ہوتیں۔ درحقیقت ایک اعتبار سے وہ قیاس آرائیاں ہی ہوتی ہیں۔ بعض لوگ مستقبل کے حوالے سے ایسی گول مول پیش گوئیاں کرتے ہیں جن پر کوئی بھی بات فٹ ہو جائے۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ چالیس سال کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے___فطری طور پر آدمی اتنے عرصے میں بہتر ہو ہی جاتا ہے اور اُس کے مالی حالات کافی ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ کسی دست شناس، ماہر علم نجوم یا آسٹرولوجسٹ کی چار باتیں غلط نکل آئیں اور ایک دو درست ثابت ہو جائیں تو لوگ سچ ہونے والی پیش گوئیوں کو اہمیت دینے لگتے ہیں اور اس کی طرف دوبارہ لپکتے ہیں۔
معروف صحافی اور دانشور خالد احمد نے ایک بار ایسی تمام پیش گوئیوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا اور اپنے کالم میں بتایا کہ ان پیش گوئیوں میں سے کتنی غلط ثابت ہوئیں۔ انہوں نے جھوٹی پیش گوئیوں کے جو اعداد و شمار بتائے وہ 80فی صد سے زیادہ تھے۔ یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ان علوم کے خلاف ہوں اور نہ ان کی حمایت کرتا ہوں۔ میرے تجربے اور مشاہدے میں جو آیا، صرف اُسے ہی بیان کر رہا ہوں۔ دراصل ان علوم کے حوالے سے دو انتہائی رویے پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ ان علوم سے بہت متاثر نظر آتے ہیں اور اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ان علوم کو اہمیت دینے لگتے ہیں جبکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو مذہبی بنیادوں پر ان علوم سے متنفر ہیں اور اس کو نہیں مانتے۔ پیش گوئیوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک نامعلوم کی دنیا سرے سے موجود ہی نہیں۔ہر چیز مادہ ہے اور مادے کی حرکت سائنسی توجیہہ کی متقاضی ہے۔ سائنس کو ظاہر ہے ہم سب اہمیت دیتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک کچھ باتیں، کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ناپنے، جانچنے کے پیمانے مختلف ہیں۔
میرے مشاہدے کے مطابق اکثر آسٹرلوجسٹ قیافہ شناس ہیں۔ میں انہیں نام نہاد ہی کہہ سکتا ہوں کیونکہ وہ قیافے کی بنیاد پر پیش گوئی کرتے ہیں۔  کوئی بات اتفاقیہ سچ ثابت ہو جائے تو اُس کا کریڈیٹ لیتے ہیں۔ میں شیخ صاحب نامی ایک ایسے آسٹرلوجسٹ کو جانتا ہوں جو کبھی پی آئی اے میں گریڈ 18کے افسر تھے۔ ریٹائرڈ ہوئے تو آسٹرلوجسٹ بن گئے۔ گلبرگ تھرڈ میں ایک کوٹھی کے پچھواڑے میں سنگل روم پر محیط کرایہ کے سرونٹ کوارٹر میں اقامت رکھتے تھے۔  بہت ہی معروف کافی شخصیات کا اُن کے ہاں آنا جانا تھا۔ سپیشل برانچ کے بھی پے رول پر تھے۔ اُن کے کوارٹر میں بہت سی سیاسی شخصیات، صنعت کاروں کی بیگمات، ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسران اکثر موجود ہوتے۔ شیخ صاحب کے روم میں کوئی صوفہ نہیں تھا۔ جو بھی کلائنٹ یا مہمان آتا اُسے نیچے ہی بیٹھنا پڑتا۔ شیخ صاحب تاریخ پیدائش پوچھتے اور فر فر کسی بھی کلائنٹ کو اُس کا ماضی بتانے لگتے۔ بندہ حیران پریشان رہ جاتا کہ یہ باتیں تو میرے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ شیخ صاحب کو کیسے ان سب باتوں کا علم ہو گیا۔ کلائنٹ مستقبل کے حوالے سے پوچھتا تو شیخ صاحب بتاتے کہ فلاں سال میں کیا ہونے والا ہے، مگر جب یہ و قت گزر جاتا اور فیوچر کی پیش گوئی درست ثابت نہ ہوتی تو اُسے شیخ صاحب کے علم پر شک ہونے لگتا۔ شیخ صاحب نے بزنس مینوں اور اعلیٰ پولیس افسران سے تعلقات بنا رکھے تھے۔ ہر کلائنٹ سے پیش گوئیوں کے عوض خطیر رقم بھی وصول کرتے۔ لیکن حیران کن امر ہے کہ شیخ صاحب جو دنیا کو آسٹرلوجسٹ بن کر مستقبل کی خبریں دیتے تھے، پیش گوئیاں کرتے تھے، اپنے لئے پیش گوئی نہیں کر سکے کہ خود اُن کااکلوتا بیٹا قتل کے ایک مقدمہ میں ملوث ہو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن