پنجاب کی تاریخ ہمیشہ سے بادشاہوں، فاتحوں اور سیاستدانوں کی حیران کردینے والی کہانیوں سے عبارت رہی ہے۔ شیر شاہ سوری نے جب گرینڈ ٹرنک روڈ بنوائی تو کہا تھا "میں نے ایسی اینٹیں بچھائی ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گی۔" مگر آج کے پنجاب میں اینٹیں نہیں، "کارڈ" بچھائے جارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے اپنے ایک سالہ دور میں صحت، ہمت، کسان، اقلیتوں، مویشیوں اور کاروبار کے اتنے کارڈ جاری کردیے ہیں کہ گننے میں نہیں آرہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کارڈز ہمیشہ "زندہ" رہیں گے؟ کیا یہ کارڈ پنجاب کے عوام کے دکھوں اور مسائل کا مداوا ہوسکتے ہیں؟ یا پھر یہ ایک نئی شاہی روایت کا آغاز جہاں "کارڈ بازی" عوامی توجہ کو بہکانے کا ذریعہ ہوگی؟
مریم نواز کا سب سے "انقلابی" اقدام خواجہ سراؤں کو ہوٹل مینجمنٹ اور شیف کے کورسز سے جوڑنا ہے۔ اسکِل ڈویلپمنٹ فنڈ کے تحت کئی خواجہ سراؤں کو 8 ہزار ماہانہ وظیفہ دے کر تربیت دی جا رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدام اْن ہزاروں خواجہ سراؤں کو معاشرے میں جگہ دے پائے گا جو گلی کوچوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں؟ یا پھر یہ محض ایک "ٹوکن ازم" ہے جس کا مقصد مغربی میڈیا کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان "ترقی پسند" ہورہا ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ مسلم معاشروں میں خواجہ سراؤں کو ہمیشہ عزت دی گئی۔ مغل بادشاہ اْنہیں محل کی چابیوں کا امین بناتے تھے، ترک سلاطین کے حرم کی نگہبانی بھی خواجہ سروں کے ہاتھوں میں دی جاتی تھی۔ مگر انگریزوں نے اِنہیں معاشرے کے کنارے پر دھکیل دیا۔ کیا مریم نواز کا یہ قدم اْس تاریخی غلطی کو درست کرنے کی کوشش ہے؟ یا پھر یہ بھی اْسی استعماری ذہنیت کا شاخسانہ ہے جہاں مظلوموں کو "ٹریننگ" دے کر خاموش کردیا جاتا ہے؟
وزیراعلیٰ پنجاب کی تجاوزات کے خلاف بے لاگ مہم کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ "اس سے پہلے ہر حکومت خوفزدہ تھی، مگر مریم نے ہمت دکھائی۔" مگر پنجاب کے کوچوں میں بیٹھا عام شہری جانتا ہے کہ یہ مہم کس قدر "چنیدہ" ہے۔ اگر ایسا نہیں تو کیا مریم لاہور کے ایلیٹ ایریاز میں قائم ریستورانوں کے باہر مقبوضہ اور متجاوز غیرقانونی بیٹھکیں بھی گرائی گی؟ یا پھر منہدم کیے جانے والے یہ صرف غریب کے چھابے ہی ہیں جو کسی طاقتور کی سرپرستی سے محروم ہیں؟
یہ المیہ صرف پنجاب کا نہیں۔ پورے پاکستان میں قانون دو طرح سے نافذ ہوتا ہے: ایک غریبوں کے لیے، دوسرا امراء کے لیے۔ مریم نواز اگر واقعی انصاف چاہتی ہیں تو اْنہیں پنجاب کی اْس "ڈیپ اسٹیٹ" کو للکارنا ہوگا جو تجاوزات کو کھلی چھٹی دے کر محصول وصولتا ہے۔
ملک بھر میں اور بالخصوص پنجاب میں حقیقی انقلاب تو وہ ہوگا جب عوام کو میرٹ پر روزگار کے مواقع دیے جائیں گے، نہ کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر ترکی کے صدر ایردوان نے 2003 میں "خودکفالت اسکیم" متعارف کروائی تھی، جس کے تحت نوجوانوں کو بلا سود قرضے دے کر چھوٹے کاروبار شروع کیے گئے۔ نتیجہ؟ ترکی آج دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔ مگر پنجاب کی حکومت کا خواب اگر یہ ہے کہ ہے کہ "ساڑھے چار لاکھ افراد قرضہ لے کر چائے کی دکان کھول لیں تو سوچنے والے تو سوچیں گے کہ کیا یہی پاکستان کا وہ معاشی وژن ہوسکتا ہے، جو اسے دنیا کی پہلی 20 معیشتوں میں لاکھڑا کرے؟
وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے موٹرسائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے کی پابندی کو "عام آدمی کے خلاف جنگ" قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے آپ مخالفین کی جانب سے بے شرمی کی انتہا بھی کہہ سکتے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ "غریب ہیلمٹ کہاں سے لائے گا؟" مگر یہ دلیل اْس معاشرے کی عکاس ہے جو قانون کو اپنی سہولت کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ کیا ہیلمٹ کی قیمت (جو ہزار روپے تک ہے) واقعی کسی موٹرسائیکل مالک کی پہنچ سے باہر ہے؟ یا پھر ہماری قوم نے اہم قوانین سے روگردانی کو اپنی فطرت بنا لیا ہے؟ یہ رویہ صرف ہیلمٹ تک محدود نہیں۔ ہم ٹریفک سگنل توڑتے ہیں، ٹیکس چھپاتے ہیں، اور تجاوزات کرتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ "حکومت ظالم ہے۔" یقینا یہ مریم نواز کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ پنجاب کے اجتماعی ضمیر کو جگائیں، نہ کہ صرف پولیس کے بل بوتے پر قانون نافذ کریں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو مشورہ دیا گیا ہے کہ "صرف تبدیلی لانا کافی نہیں، اسے باور کروانا بھی ضروری ہے۔" مگر سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز واقعی تبدیلی لارہی ہیں؟ یا پھر یہ سب کچھ 2028 کے الیکشن کا "بیانیہ" تیار کرنے کی کوشش ہے؟
تاریخ بتاتی ہے کہ حکمران خاندانوں کی سیاست میں "بیانیے" اور "حقیقت" کا فرق ہمیشہ سے رہا ہے۔ مثال کے طور پر نوابزادہ نصراللہ خان نے 1950 میں پنجاب میں زمینی اصلاحات کا نعرہ بلند کیا تھا، مگر جب جاگیرداروں نے مزاحمت کی تو وہ بھی خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ کیا مریم نواز اپنے طبقے کی اْس روایت کو توڑ پائیں گی جو ہر اصلاح کو "نعرے" تک محدود رکھتا ہے؟
مریم نواز شریف کا ایک سالہ دورِ حکومت اْس کشمکش کی عکاسی کرتا ہے جو ہر نئی قیادت کو درپیش ہوتی ہے: "عوامی توقعات کو پورا کرنا یا اپنے سیاسی مفادات کو محفوظ بنانا۔" خواجہ سراؤں کی تربیت، تجاوزات کے خلاف مہم، اور ہنر مندی کے اسکیمز قابلِ تعریف ہیں، مگر یہ سب اْس وقت تک بے معنی ہیں جب تک پنجاب کا ایک طاقتور طبقہ قانون سے بالاتر رہے گا۔
پنجاب کی تاریخ نے بہت سے حکمران دیکھے ہیں۔ کوئی شیر شاہ سوری بن کر ابھرا، تو کوئی رنجیت سنگھ بن کر مٹی میں مل گیا۔ مریم نواز کا شمار کس فہرست میں ہوگا؟ یہ انحصار اس بات پر ہے کہ وہ "کارڈ کھیلنے" کی بجائے پنجاب کی زمین کو انصاف، خودداری، اور حقیقی ترقی کی بنیاد استوار کریں۔ ورنہ تاریخ کے اوراق میں کارڈز پلیئرز حکمران پہلے بھی بہت آئے ہیں۔
٭…٭…٭