لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ چونتیس منٹ کی تاخیر سے سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔گذشتہ روز بھی پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان داخل ہوئے تو نعرے بازی کرتے رہے اور اپوزیشن ارکان سپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ نکتہ اعتراض پر حکومتی رکن امجد علی جاوید نے کہا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں غریبوں کی دکانیں نہ صرف گرائی جا رہی ہیں اور بلکہ ان کے کرائے تین گناہ کئے گئے، اگر کسی غریب کا روزگار دکان سے وابستہ ہے اگر وہ ان سے چھین لی جائے گی تو وہ اپنا گھر کیسے چلائے گا، غریب کی جھونپڑی گرائی جا سکتی ہے تو گر جائے لیکن جمخانہ کلب پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن اس معاملہ پر متعلقہ لوگوں سے بات کرکے بتائیں۔ ایک سو نو ایکڑ زمین کا پچاس پیسے ماہانہ کرایہ ہے جو ایلیٹ کلاس کا غاصبانہ قبضہ ہے جو اپنی تاریخ رکھتا ہے۔ سپیکر ملک محمد احمد خان نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس پندرہ منٹ کیلیے ملتوی کردیا۔اجلاس پندرہ منٹ کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا تو اپوزیشن رکن رانا آفتاب احمد نے ایوان میں اپنی بے بسی کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ آج تک آپ نے جو بھی رولنگ دی اس پر عمل درآمد نہ ہوا، پاسپورٹ آفس میں گریڈ 5 کا آیا اور اسے ترقی دے کر گریڈ 17میں ترقی دیدی گئی، گریڈ پانچ والے آفیسر کے پاس بوگس ڈگریاں بھی ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے جواب میں کہا کہ پی اے سی کی سفارشات اور اپنے احکامات پر نظر ثانی کرتا ہوں۔ اپوزیشن رکن کا کہنا تھا کہ عدالتی سسٹم بھی ناکام ہوگیا ہے اور قانون ساز بھی کچھ نہیں کر پا رہے۔ سپیکر نے کہا کہ آپ کہتے ہیں آرٹیکل 194پر رولنگ دوں اور نئی پولیس میں نئی فورس تشکیل دی جا رہی ہے جس پر پولیس آرڈر 2002ء کا معاملہ بھی آتا ہے تو اس پر تفصیلی رولنگ دوں گا۔ پارلیمانی وزیر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ایس ایم بی آر اور ڈی سی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بھی بات ہوئی ہے، ایس ایم بی آر نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کے مطابق اسٹیٹ لینڈ آکشن کے بغیر نہ دیا جائے، جو لوگ دکانوں پر بیٹھے ہیں انہیں پہلی ترجیح ان لوگوں کو دی جائے گی، بہت کم چارجز پر جو دکاندار بیٹھے ہیں، ڈی سی نے کسی کو آرڈر نہیں دیا کہ سٹے کی خلاف ورزی کرے، گیارہ سو اکتیس شاپس سے نو سو تیس شاپس نے سٹے لے لیا ہے۔ ڈی سی نے بولا کہ کسی کو کچھ نہیں کہا، ایک سو اسی شاپس بولی پر لائے ہیں تو پہلے بیٹھے دکانداروں کو پہلی ترجیح دی جائے گی، سولہ لوگ ایسے ہیں جن کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ لوگ ہیں جن کے پاس رینٹ کاغذ نہیں اور وہ قابضین ہیں، ان کیخلاف کارروائی ہوئی ہے۔ انجمن تاجران کے نعیم میر وفد کے ساتھ پنجاب اسمبلی آئے تو ان کی بات سن لی جائے، سپیکر نے کہا کہ جن کے پاس کوئی کاغذ موجود ہی نہیں ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں سی پی اے سائوتھ ایشیا ریجنل کانفرنس کروانے پر قرارداد پنجاب اسمبلی میں متفقہ طورپر منظور کر لی گئی۔ کانفرنس کامیاب انعقاد پر تعریفی قرارداد ارکان اسمبلی سارہ احمد اور مہوش سلطانہ نے پیش کی،جس میں سپیکر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ہائوسنگ شہری ترقی و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے متعلق سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری سلطان طارق باجوہ نے کہا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چکوک میں واٹر سپلائی اور ٹیوب ویلز جو خراب تھے اسے ٹھیک کردیا گیا ہے،چکوک کی مشترکہ واٹر سپلائی سکیم فعال ہے اور چکوک میں جو ایک ٹیوب ویل کا ٹرانسفارمر چوری ہوا تھا اسے لگا دیا گیاہے، رکن اسمبلی حنا پرویز بٹ کے سوال پر سلطان طارق باجوہ نے جواب دیا کہ نقشہ اور بینک سٹاپ پیڈسٹرین برج عوامی مفاد کیلئے بنایا گیا ہے جو پہلے پچانوے فیصد مکمل کیاگیا لیکن اب سو فیصد مکمل کر دیا گیا ہے،نقشہ سٹاپ کے قریب ایک سکول ہے جہاں چھٹی کے وقت رش ہوتا ہے،اگر ضروری ہوا تو ایک اور پل نقشہ سٹاپ پر بنا دیاجائے گا۔ اپوزیشن رکن ندیم قریشی کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ اگر ملتان ٹی بی روڈ کی سڑک مکمل نہ ہوئی ہوگی اور محکمہ نے جواب غلط دیا ہوگا تو پھر محکمہ کے خلاف سخت کارروائی کروں گا، صوبہ میں پنجاب صاف اتھارٹی قائم کردی گئی ہے جس سے پنجاب کو صاف پانی مہیا کریں گے، اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے گلشن اقبال پارک میں واش رومز کے معاملہ پر سوال ایوان میں نہ آنے پر احتجاج بھی کیا اور کہا کہ جب لاہور کے جواب ایک سال بعد آئیں گے تو باقی شہروں کا کب جواب آئیں گے، اگر اسمبلی رولز پر عمل درآمد کروایا جائے تو پھر محکمے غلط جواب دینا بند کردیں گے،ایک ایک سال کے بعد سوالوں کے جواب آئیں گے تو اس پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے،فیصل آباد میں امن و امان کی مخدوش صورتحال پر حکومتی اپوزیشن پھٹ پڑے ،حکومتی رکن جعفر علی ہوچہ کا کہنا تھا کہ فیصل آباد میں جس طرح پولیس اہلکاروں کو قتل کیا جا رہا ہے جلد ہی فیصل آباد بھی کچے کا علاقہ بن جائے گا،حکومتی رکن راؤ کاشف رحیم کا کہنا تھا کہ حلفا کہتا ہوں فیصل آباد میں ایسے کئی علاقہ ہیں جو نو گو ایریا بن چکے ہیں، تحصیل سمندری میں چودہ چودہ قتل و ڈکیتی کے واقعات ہوئے ہیں لیکن کوئی ملزم نہیں پکڑا گیا, ڈپٹی سپیکر ملک ظیر اقبال چنڑ کا کہنا تھا کہ اگر ایم پی ایز ایوان میں امن و امان کی صورتحال پر تحفظات کااظہار کررہے ہیں تو اس کا حل نکالا جائے،رانا آفتاب کا کہنا تھا کہ فیصل آباد میں مغرب کے بعد اپنے گائوں سے واپس نہیں آ سکتے، جب پولیس کے چھوٹے رینک کے اہلکار کو بڑا افسر بنا دیں گے تو پھر وہ تو دکان کھول لے گا،انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایماندار افسر کو فیصل آباد میں تعینات کیا جائے۔ ایوان میں مسودہ قانون تنسیخ کھال پنچائت پنجاب 2025ء ، مسودہ قانون سہولت بازار اتھارٹی پنجاب 2025ء ، مسودہ قانون ترمیم نوٹریز 2025 اور مسودہ قانون صوبائی موٹر گاڑیاں 2025ء ایوان میں پیش کر دئیے گئے،جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیز کے سپرد کرتے ہوئے سپیکر نے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پری بجٹ پر بحث چوتھے روز بھی جاری رہی، بحث میں حصہ لیتے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے کہا کہ جس طرح امن و امان اور ہاؤس میں غلط جوابات محکمہ جات دیتے ہیں، حکومت یہ بتائے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں بنیادی حقوق ، صحت ، زراعت، تعلیم کو بہتر کرنے پر ہے تو ایک سال کی کارکردگی بتا دوں گا،تمام محکمہ پی اینڈ ڈی جاکر نمبر لگواتے ہیں کوئی کہتا پچیس اور تیس فیصد بچت رکھ دیں تو اس طرح عام آدمی کی حالت کیسے بدلیں گے،دال چنے کی قیمت میں 72فیصد، بیسن 59فیصد اضافہ ، مونگ دال میں 37فیصد، چاول کی قیمت سو روپے اورگھی 450سے بڑھ کر 550 روپے تک قیمت پہنچ گئی ہے، لوبیا چار سو روپے کلو،بیف1400روپے ،دودھ 220 روپے لیٹر،آلو ایک سو بیس روپے قیمت بڑھ گئی ہے، عام آدمی کو روڈ پر نیلی پیلی ، کلینک آن وہیل سے کچھ نہیں ملے گا بلکہ بنیادی اشیائے خورونوش دی جائیں، حکومت نے ننانوے ارب روپے گندم نہ خرید کر کسانوں کا نقصان پہنچایا ہے، کسان اب تیس فیصد گندم کم کاشت کررہا ہے اس کا نقصان یہ ہوگا کہ فلور ملیں بند ہوجائیں گی،گلی سڑی گندم اب فلور ملیں نہیں خرید رہی گندم نہ خرید کر کسانوں کا آٹھ سو ارب روپے نقصان کیا جس سے کسان تباہ ہوگیا، چینی جو ہمارے دور میں پچاس روپے تھی اب اس کی قیمت آسمان پر پہنچ چکی ہے، چھ لاکھ روپے ماہانہ پر سکول کو پرائیویٹائز کردیا گیا ہے، ہارس اینڈ کیٹل شو میں دو سو سے زائد لوگ ہی نہیں ہوتے اس پر سرکاری خزانے سے ڈیڑھ ارب روپے خرچ کئے گئے، پچپن کروڑ روپے اقلیت کو دینا ہے تو اشتہارات پچپن کروڑ سے زائد ہے، آپ دیکھیں گے کہ اگلے سال گندم کے بعد شوگر کین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ستھرا پنجاب، دھی رانی پروگرام اور کسان کارڈ کس طرح دئیے گئے، آسان قرضہ کیلئے کہتے ہیں پہلے ٹیکس نمبر دیں وہ تو کچھ کرتا ہی نہیں تو ٹیکس نمبر کیسے دے گا، 21 سے 41سال کیلئے عمر والا ہی ٹریکٹر خرید سکتا ہے تو دو سو کسان ہی بتا دیں جن کے پاس ٹریکٹر گیا ہو اور تین سالہ معاہدہ پر ٹریکٹر دئیے جا رہے ہیں۔ راول ڈیم سمیت دیگر اہم جگہوں میں سی ایم کیمپ ہاؤس بنا دیئے ہیں تو کیا حکومت نے حساب نہیں دینا، ایک نہ ایک دن گھر جانا ہے۔ وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پنجاب اسمبلی میں قبل از بجٹ بحث پر اختتامی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ملک معاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے، گلوبل اکنامک پریشر ہے، اس کے باوجود حکومت متناسب بجٹ پیش کرنا چاہتی ہے۔ ایک ہزار ارب روپے کا ٹارگٹ تھا جو اس وقت تیس جنوری تک ٹارگٹ کا پچاس فیصد سے زائد صوبہ نے حاصل کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا عزم ہے کہ بجٹ 2025-26 میں بہترین منصوبہ آگے بڑھائیں گے۔ ووکیشنل ایجوکیشنل ٹریننگ سے نوجوانوں کو ٹریننگ دیں گے، ہارٹ سرجری پروگرام سے عوام کو سہولیات دیں گے۔