رونقیں سمیٹے سہہ روزہ فیض میلہ اختتام پذیر ہوگیا 

فیض احمد فیض کی یاد میں ہر سال لاہور میں بڑے لیول پر ایک میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے ، ہر سال کی طرح اس بار بھی فیض امن میلے اورفیض فیسٹیول کاانعقادکیا گیا۔ ہر سال یہ میلہ الحمراء آرٹس کونسل میں سجایا جاتا ہے۔ جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں  اوربالخصوص ادب سے رغبت رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ فیسٹیول میںاس بار ادبی وثقافتی مکالموںکی نشست،کتب کی تقریب رونمائی،بامعنی و پرمغز مباحثے،آؤٹ ڈور پرفارمنس،تھیٹر،قوالی ، فوڈ سٹالز،ثقافتی اشیاء کے اسٹالزکے علاوہ ڈرم سرکل،اوپن مائیک ودیگر بے شمار سرگرمیوں  میں  علی ادبی اور فنون لظیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے نمائندگی کی۔تین دن تک جاری رہنے والے اس فیسیٹول میں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فنکاروں اور صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ معروف بھارتی اداکارہ و ڈائریکٹر نندیتا داس کی خصوصی شرکت سے میلے میں وہ توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کا آغاز نمائش بعنوان’’تم اپنی کرنی کر گزرو‘‘ سے ہوا۔سنو گپ شپ کے عنوان سے سیشن میں ڈاکو منٹری فلم دکھائی گئی۔فلم کے موضوع پر سلیمہ ہاشمی، محمد حنیف،فرجادنبی،ثمینہ احمد، عرفان کھوسٹ،نوید شہزاد، ارشد محمود اظہار خیال کیا۔نامور گلوکار شفقت امانت علی خان نے اپنے منفرد انداز میں پرفارم کیا۔افتتاحی تقریب میں ملک کی نامور ادبی و ثقافتی،سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ تینوں دن سیشنز کا انعقاد کیا گیا۔ ملکی و غیر ملکی میڈیا نے فیض فیسٹیول کو بھرپور انداز میں کوریج دی۔فیسٹیول میں نامور ادیب،دانشور، سکالرز زہرہ نگاہ، افتخار عارف،کشور ناہید، محمد حنیف، کامران لاشاری،عارفہ سیدہ،ڈاکٹر خورشید رضوی، سلیمہ ہاشمی، اصغر ندیم سیدرونق بنے رہے ۔ ناصر عباس نیئر، عرفان کھوسٹ، ارشد محمود، نوید شہزاد، عباس تابش، منیزہ ہاشمی،حمیدہ شاہین،حماد غزنوی،شکیل جاذب، فوزیہ وقار، کلثوم ثاقب، آمنہ مفتی، آمنہ علی،عدیل ہاشمی نوجوانوں کی آواز بنے۔فخر اعجاز الدین،ثمینہ پیرذادہ،رحمان فارس،قاسم جعفری و دیگر مندوبین نے شرکت کی۔ فیض احمد فیض کی شاعری پر منعقدہ نشست میں زہرہ نگاہ،افتخار عارف ،ماڈریٹر ڈاکٹر سیف محمود کے ساتھ ہم کلام ہوئے۔’’تم جو چاہو تو سنو‘‘ کے موضوع پر منیزہ ہاشمی کا نندتا داس کے ساتھ مکالمہ پیش کیا گیا۔ روایتی و جدید میڈیا پر بھی سیشنز ہوئے۔ لاہور کی ادبی ثقافتی زندگی کو اْجاگر کیا گیا۔بپسی سدوا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔’’ہم دھرتی کی ملکائیں ہیں‘‘ کے سیشن میں خواتین کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ فیسٹیول میں ارض فلسطین کا الم، اْردو ہے جسکا نام، بڑھتی آبادی،سمٹتی دھرتی،کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، ہر کام پہ ہے قصہ گوئی،ٹی ڈرامہ کا سفر، ہزارہ ثقافت، اْردو زبا ن کی خوشبو،آہنگ خسروی، ساقیا!رقص صباء کی صورت، فیض کا لاہور، رقص مے تیز کرؤ،سارے فسانے میں جسکا ذکر نہ تھاو دیگر موضوعات پر سیشنز ہوئے۔نامور گلوکاہ سارہ رضا خان نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ تیسرے روز فیض کے ادبی سرمایہ پر کئی ایک سیشنز ہوئے، تیسرے اور آخری روزبھی اردو زبان، سعادت حسن منٹو،فلسطین اور فیض احمد فیض کے مجموعہ کلام پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
 فیسٹیول کی ایک نشست معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے لیے مختص تھی اور نشست سے بات کرتے ہوئے معروف بھارتی اداکارہ نندیتا داس کا کہنا تھا کہ بھارت میں منٹو کو بہت سراہا جاتا ہے، بھارت میں منٹو کی کہانیوں پر ناٹک ہوتے ہیں۔ نندیتا داس لاہور میں پہلی بار 1996میں آئی تھیں اورانہیں ہر بار یہاں آنا بہت اچھا لگتا ہے ،  انہوں نے کہا فیض احمد فیض صرف آپ کے نہیں ہیں ہمارے بھی ہیں، فیض کے پرستاروںکو پاکستان کے لوگ ہر جگہ بہت پیار کرتے ہیں۔ نندیتا نے مزید کہا کہ سعادت حسن منٹو سے مجھے عقیدت ہے اسی لئے میں نے منٹو پر فلم بھی بنائی اور ایک کتاب بھی لکھی۔ہمارے دل بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ہیں۔ معروف پاکستانی ہدایت کاراوراداکار سرمد کھوسٹ نے کہاکہ منٹو اتنا بڑا نام ہے کہ لکھتے جاؤ  اختتام نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ "اردو ہے جس کا نام" کے عنوان سے گفتگو میں معروف دانشور ڈاکٹر عارفہ سیدہ اور زہرہ نگاہ نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان صرف اردو زبان نہیں تہذیب کا نام ہے، یہ نہ ہوتی ہم گونگے ہوتے، اردو ملنسار کی طرح ہے سب کو گلے لگا لیتی ہے،فیسٹیول میں کتاب "جب تک ہے زمین" کی رونمائی بھی ہوئی۔
فیض فیسٹیول میں ارضِ فلسطین کے الم پر بھی نشست ہوئی، فلسطینی عوام اور بچوں کے مظالم پر نظم اور لوری پڑھی گئی۔ نجی سکول کی بچیوں نے فیض احمدفیض کے کلام پرپرفارم کر کے سماں باندھ دیا۔تین روزہ فیض فیسٹیول میں 50سے زائد گفتگو کے سیشن، مشاعرے، اوپن مائیک،ڈھول کی ترنگ، کئی کتب کی تقریب رونمائی، تھیٹر ورکشاپ،موسیقی کی پرفارمنسزکے علاوہ شاندار سگمنٹ شامل تھے۔یوں رونقیں سمیٹے فیض فیسٹیول اختتام پذیر ہو گیا۔

ای پیپر دی نیشن