پروفیسر سیدمحمد ابرار شاہ بخاری
Peerji63@gmail.com
اپنے خاندانی پس منظر اور ماحول کی وجہ سے مراا ذہنی ملاون درس و تدریس کی طرف رہا۔ اگرچہ درس و تدریس سے پہلے مں نے مختلف پرائیویٹ اداروں مںو اکائونٹس کے شعبہ مں خدمات سرانجام دیں لکنی مر ی افتاد طبع ان کاموں کے لئے ناموزوں تھی چنانچہ اپنے شوق اورذوق کی پشر نظر اس پیغیمبر انہ پیشے سے وابستگی اختامر کی اور الحمد للہ کم و بشس نصف صدی (40 سال) تک اس شعبے سے منسلک رہا۔ حفظت جالندھری کے شعر میں تھوڑی سی تبدیلی کے بعد میںیہ بات کہ سکتا ہوں
تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی ابرار کا حصہ ہے
وہ نصف صدی کا قصہ ہے ، دو چار برس کی بات نہیں
والدین کی تربیت اور اثرات کی وجہ سے میرے دل میں بھی خدمت خلق، مخلوق خدا کی بھلائی ، فلاح اور خرچ خواہی و ہمدردی کا جذبہ ہمشہ موجزن رہا۔ جس طرح والدین خصوصاًوالدہ بچے کی پہلی تربت گاہ اور درسگاہ ہوتی ہے اس طرح میرے پیش نظریہ جذبہ اور مقصد کار فرما رہا کہ درس و تدریس سے وابستہ رہ کر انسان ، نوجوان نسل کی ذہنی ، فکری، نظریاتی، اخلاقی ، تہذیبی، علمی، دینی اور نفسیاتی راہنمائی کرسکتا ہے اس لئے میں نے نوجوان طلباء و طالبات کو تعیلم کے ساتھ ساتھ تربیت کا پہلو ہمشہ سامنے رکھا کیو نکہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ تربیت کے بغیر تعلمی ناقص اور تعلیم کے بغیر تربیت ادھوری ہے۔ یہ خود ستائی اور خود توصیف نہیں بلکہ مقام شکر ہے کہ اللہ تعالی کی توفقیق سے طلباء و طالبات کے ساتھ تعلقات مثالی رہے اور میں نے مقدور بھر ان کی تعلیی اور علمی راہنمائی کی نہ صرف یہ بلکہ ان کے ذاتی اور گھریلو معاملات اور مسائل کی جانکاری اور انہیں سلجھانے کی بساط بھر سعی کی۔ علم و فضل کی کمی اور ناقص عمل کے باوجود، اللہ کے فضل و کرم سے طلباء و طالبات نے میر ی درس و تدریس میں بھر پور دلچسپی لی اور نہ صرف مری کلاس مں 100 فی صد حاضری ہوتی بلکہ اللہ کی رحمت ، طلباء و طالبات کی محنت اور میری اعانت کے ساتھ نتائج بھی ہمیشہ 100 فی صد رہے۔ مجھے بہترین ٹیچر قرار دے کر محکمانہ سظح پر اس کارکردگی کا اعتراف بھی گاہے بگاہے ہوا۔اس مختصر تمہد ی پس منظر کے بعد کچھ اہم مسائل اور معاملات کی طرف ارباب اختابر و اقتدار کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ مںر راولپنڈی شہر کا قدییب رہائشی ہوں اور یہاں کم و بشا ساٹھ سال سیمقما ہوں۔ اس شہر کے طویل نشبہ و فراز اور یہاں ہونے والے بتدریج معاشرتی ، تعلیی اور تہذیت اور رجحانات کا چشم دیدگواہ ہوں چونکہ مں شعبہ تعلیم سے منسلک رہا ہوں۔ اس لئے اس شہر میں ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں سے کماحقہ واقف ہوں 1964 مں بننے والے دارالحکومت اسلام آباد کی وجہ سے جڑواں شہر راولپنڈی کی اہمتی بہت بڑھ گئی اوریہ کراچی ، لاہوراور فیصل آباد کے بعد پاکستان کا چوتھا بڑا شہر بن گیا۔ آج راولپنڈی سرکاری اور پرائویٹ جامعات ، کالجوں اور سکولوں کی وجہ سے پاکستان کا اہم تعلیمی مرکز بن چکا ہے۔ کئی بنک الاقوامی میعار کی درس گاہیںیہاں موجود ہںو جہاں تشنگان علم اپنی علمی و تعلیی پیاس کے لئے دور دراز سے یہاں آتے ہیں۔ میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس راولپنڈی میں طویل عرصے تک پڑھاتا رہا ہوں۔ میرے بہت سے رفقاء دوسرے شہروں سے نقل مکانی کرکے محض بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے اس شہر میں سکونت پذیر ہوئے اور مستقل طور پر یہاں آباد ہو گئے۔ بیشتر پروفیسر حضرات بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کی تعلیم کے لئے اس شہر مں وارد ہوئے اور انہوں نے یہاں سے اعلی ڈگریاں لیں۔ راولپنڈی کے قرب و جوار سے جنوبی پنجاب اور گلگت بلتستان تک طلباء و طالبات حصول تعلم کے لئے یہاں آتے ہیںمیرا رہائشی علاقہ تجارتی اورکاروباری سرگرمو ں کے ساتھ ساتھ سرکاری اور پرائو یٹ تعلی ل اداروں کا مرکز ہے۔میرا ادارہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس راولپنڈی شہر کے تقریباَ وسط میں ہے یہاں نہ صرف قرییا بلکہ دور دراز کے علاقوں کے طلباء و طالبات بھی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ راولپنڈی کے نواحی علاقوں واہ کینٹ ، ٹیکسلا ، کہوٹہ، گوجر خان ، کلر سیداں ، روات، ڈھوک سد اں ، مصریال، ٹنچ بھاٹہ ، فیض آباداور دیگر جگہوں سے کثیر تعداد می طلبہ یہاں تعلمی حاصل کرنے آتے ہں ۔ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری بھرکم فیسو ں اور دیگر اخراجات کے مقابلے میں اس کالج میں غریب اور متوسط طبقے کے لئے نہایت کم جبکہ تعلیمی کا معاصر بہت اعلی اور بہترین ہے مسئلہ حل طلب اور قابل غور یہ ہے کہ فیض آباد ، شمس آباد، گلشن دادن خان، ڈبل روڈ اور ملحقہ علاقوں سے آنے والے طلباء و طالبات کو اس وقت کالج پہنچنے میں شدید دشواری ہوتی ہے جب ڈبل روڈ پر واقع کرکٹ سٹڈیم میں ملکی یا بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ ہورہے ہوں تو یہ ٹورنامنٹ کئی کئی دن جاری رہتا ہے اور اس موقع پر ڈبل روڈ دونوں طرف سے ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دی جاتی ہے۔ سیکوارٹی کی وجہ سے پیدل چلنے والوں کو بھی روک دیا جاتا ہے نہ صرف یہ بلکہ مری روڈ پر شمس آباد سے فیض آباد اور ڈبل روڈ پر واقع تمام دکانیں ، ہوٹلز، ہاسٹلز، ہسپتال اور ورکشاپیں بند کردی جاتی ہیں۔ اس بندش سے نہ صرف کاروباری اور تاجر حضرات کا نقصان ہوتا ہے بلکہ اکثر طلباء و طالبات کو کالج سے غیر حاضررہنے کی وجہ سے تعلیمی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ میچز کا یہ سلسلہ کئی کئی دن جاری رہتا ہے لیکن چھوٹے تاجروں ، محنت کشوں اور کاروباری لوگوں کے نقصان اور نادار اور غریب طلباء و طالبات کے تعلیمی زیاں کا کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ کسی قوم کی پستی اور زوال کی انتہا یہ ہوتی ہے کی اس میں احساس زیاں بھی ختم ہو جائے اور بد قسمتی سے ہم اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ سٹڈیم کے سامنے سے گزرنے والی معروف ڈبل روڈ ، راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی اہم سڑک ہے جس کی بندش سے بے شمار کاروباری لوگ ، سرکاری اور پرائویٹ ملازم ، یونیورسٹیو ں ، کالجوں اور سکولوں کے طلباء اپنی جائے کاروبار ، ملازمت یا تعلیمی ادارے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ڈبل روڈ بند ہونے سے ٹریفک کا اڑدہام سیدپو روڈ پر آجاتا ہے جو پہلے ہی تنگی داماں پر شکوہ کناں ہے۔ ٹریفک کی اس روک سے کئی مریض ایمبولینسوں میں جان سے ہاتھ دھو بٹھتے ہں۔ کرکٹ سٹڈ یم کی اس جگہ پر موجودگی عوام الناس کیلئے ذہنی اذیت بن چکی ہے۔میری تجویزیہ ہے کہ سٹڈیم کو اس جگہ سے ختم کردیا جائے اور شہر سے دور (مجوزہ طور پر نئے ائرپورٹ کے قریب) ایک بین الاقوامی معیار کا کرکٹ سٹڈیم اور اس کے ساتھ ہی پنج ستارہ ہوٹل تعمیر کیا جائے جہاں غیر ملکی کھلاڑیوں او ر آفیشلز کے قیام کا انتظام ہو اس سے سیکورٹی کے مسائل بہت کم ہو جائیں گے اور غریب عوام کے ٹکسو ں سے سیکورٹی پر کئے جانے والے کروڑوں کے اخراجات میں بھی نمایاں کمی ہوگی جبکہ کرکٹ سٹڈیم کی جگہ کوئی ہسپتال ، یونیورسٹی یا کوئی اور عوامی فلاحی ادارہ بنا دیا جائے۔ امید کرتا ہوں کہ ارباب اختیا ر تجویز کو قابل عمل سمجھتے ہوئے ، عوام کہ سہولت اور آسانی کے پیش نظر اسے عملی جامہ پہنائیں گے ۔میں نے راولپنڈی میں شروع کئے جانے والے ایک پروجکٹ کا متعدد بار ذکر کیااور اس کی طرف حکام کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے لیکن اس حوالے سے ہنوز مر ی آواز صدابصحرا ثابت ہوئی ہے۔ میری مراد ذچہ بچہ ہسپتال سے ہے جو راولپنڈی کے غریب متوسط طبقے کی خواتین کیلئے بہترین فلاحی منصوبہ تھا۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ منصوبہ تا حال مکمل نہیں ہوسکا اگر اس منصوبے کی تکمیل کی توجہ نہ دی گئی اور اس سے اغماض اور بے توجہی برتی گئی تو خدشہ ہے کہ یہ شاندار منصوبہ کھنڈرات میں تبدیل ہو جائے گا۔ جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنے شہروں ناگا ساکی اور ہیرو شما پر ہونے والی بمباری اور ان شہروں کے کھنڈرات میں تبدیل ہونے کے بعد، اپنے عزم ، لگن ، جذبے اور محنت سے کھنڈرات کو دوبارہ عظمیم الشان شہر بنا دیا تھا اور ہم اپنے منصوبہ جات اور عمارتوں کو کھنڈرات بنا رہے ہیں۔ نشئی اور پؤڈری مذکورہ ہسپتال کا سریا اور دوسرا میٹیریل بیچ رہے ہیں حکومت پنجاب سے انتہائی دردمندانہ درخواست ہے کہ اس بہترین فلاحی منصوبے کو رائیگاں ہونے سے بچائیںاور اسے جلد از جلد پائہ تکمیل تک پہنچا کر اور راولپنڈی کے غریب اور متوسط طبقے کو فوری اور سستا علاج فراہم کرکے ان کی دعائیںلیںا۔امجد اسلام امجد نے کہا تھا
نہ آج ہے اور تو کچھ بھی ہمارے ہاتھوں میں
سوائے عرض تمنا، سو کرتے جاتے ہیں
مں جڑواں شہروں کے مسائل کی طرف ایک ذمہ دار اور محب وطن شہری کا فرض سمجھتے ہوئے ان کی نشاندہی کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ اسلام آباد کے مسائل ، توجہ دلانے پر جلدی حل ہو جاتے ہیں۔ میں نے 9thایونیو پر بننے والے اوورہڈ برج کی نشاندہی کی۔ جلد ہی اس مسئلے کا سدباب کردیا گیا ۔ اسی طرح منڈی موڑ اسلام آباد سے آئی ٹن اورآئی نائن سے گزرنے والی آئی جے پی روڈ کی خستہ حالی اور اس کی تعمیر کی طرف توجہ دلائی اور اس اہم سروس روڈ پر بھی کام کا آغاز ہو گیا جو بڑی تیزی سے جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں راولپنڈی کے مسائل کو حل کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ادارے ، محکمے، افراد اور وسائل موجود ہیں لیکن تساہل ، غفلت اور غیر ذمہ داری ہمارا قومی شعاراور مزاج بن چکی ہے۔ یورپ کے چھوٹے چھوٹے غیر مسلم ممالک ، بیلجیئم، سویڈن، ڈنمارک ، ناروے، سوئٹرز لنڈ ، ہالینڈ بہترین اور ما لی فلاحی ریاستیں بن چکی ہیں اور ان ملکوں نے اکثر اصول اور ضابطے اسلام سے لئے ہں جبکہ اسلام کے نام پر حاصل اور قائم ہونے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان آج تک اسلامی فلاحی ریاست نہیں بن سکا۔ بقول سلیم احمد
شاید کوئی بندہ ء خدا آجائے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں