کسی بھی پروفیشن کو اپنانے کے لیے اعلی ڈگری کا ہونا ضروری ہے جو متعلقہ فیلڈ میں لی جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ باقائدہ طور پر اس پروفیشن میں قدم رکھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اعلی تعلیم کے حصول کے لیے تعلیمی اخراجات بھی اعلی ہی ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اخراجات ڈاکٹر بننے میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر بننے کے لیے ذہین ہونا شرط تو ہے ہی لیکن اگر آپ کی جیب خالی ہے اور آپ لاکھوں کی فیس بھرنے سے قاصر ہیں تو شاید آپ کو ڈاکٹر بننے کا خواب ترک کرنا پڑ سکتا ہے۔
سرکاری میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں فیسیں قابل برداشت ہیں لیکن ہائی میرٹ اور کم سیٹوں کے باعث ایک بڑی تعداد کو نجی میڈیکل کالجز کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
اس سال 2025 کے لیے میرٹ لسٹ کے مطابق سرکاری ہسپتالوں کا اوسط میرٹ مجموعی طور پر 94 سے 96 فیصد پر برقرار رہا، جس میں پری میڈیکل اور انٹری ٹیسٹ کے نمبروں سے تناسب بنایا گیا۔
جبکہ نجی میڈیکل کالجز کا میرٹ 72 فیصد تک رہا۔ میرٹ میں اس نمایاں کمی کے باعث جن سینکڑوں طلبہ کو سرکاری میڈیکل کالجز میں میرٹ پر داخلہ نہ مل سکا انہوں نے نجی کالجز میں لاکھوں روپے فیس ادا کر کے داخلے حاصل کیے۔
طلبہ کے والدین کے مطابق تمام نجی کالجز نے الگ الگ فیسیں رکھی ہوئی ہیں۔ جن میں 25 لاکھ سے 35 لاکھ روپے تک سالانہ فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ سرکاری کالج کی فیس صرف 18 ہزار روپے سالانہ ہوتی ہے۔اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ میڈیکل سے منسلک نجی تعلیمی اداروں کی ٹیوشن فیسیں اٹھارہ لاکھ سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ یہ فیصلہ وزیرِاعظم پاکستان کی جانب سے قائم کردہ میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی، جس کی سربراہی نائب وزیرِاعظم پاکستان کر رہے ہیں، نے جاری کیا ہے۔
کمیٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نجی اداروں میں ٹیوشن کی بڑھتی ہوئی قیمت طویل عرصے سے طلبا اور ان کے خاندانوں کے لیے بوجھ بنی ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان میں قابل رسائی اور مساوی طبی تعلیم کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوا?رڈینیشن کی ذیلی کمیٹی نے تمام نجی میڈیکل اور ڈینٹل اداروں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ 2024-2025 کے تعلیمی سیشن کے لیے طلبہ سے فیس وصول نہ کریں۔
ملک میں نجی میڈیکل کالجز کا رجحان کیسے بڑھا تو سنہ 1990 تک ملک میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں سرکاری شعبہ نمایاں طور پر حاوی تھا، جہاں تقریباً 20 سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز موجود تھے، جبکہ نجی شعبے میں صرف دو کالجز کام کر رہے تھے۔تاہم، 1990 کی دہائی کے اوائل میں حکومت کی جانب سے نجکاری کے رجحان کے فروغ کے ساتھ ہی یہ توازن نجی شعبے کی جانب جھکنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجی میڈیکل کالجز کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میڈیکل کمیشن کے 2021 کے ڈیٹا بیس کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر 176 میڈیکل اور ڈینٹل کالجز ہیں۔ ان میں 45 سرکاری اور 72 نجی میڈیکل کالجز ہیں، جبکہ 17 سرکاری اور 42 نجی ڈینٹل کالجز بھی شامل ہیں۔گذشتہ چند سالوں میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کالجز نے جدید انفراسٹرکچر اور بہتر تعلیمی سہولیات کی بنیاد پر اپنی جگہ بنائی، لیکن ان کی فیسیں عام طالب علموں کی پہنچ سے دور ہوتی گئیں۔فیسوں کی حد مقرر ہونے کے اس فیصلے سے وہ طلبہ سب سے زیادہ مستفید ہوں گے جو میڈیکل کے داخلے کے لیے سخت محنت تو کرتے ہیں مگر فیس کی وجہ سے مجبور ہو کر دوسرے شعبوں میں چلے جاتے ہیں یا پھر بیرون ملک تعلیم کے لیے قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔
کئی کالجز فیس کی یہ حد مقرر ہونے کے بعد اپنی فیسوں کے سٹرکچر پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں۔جبکہ کئی نجی میڈیکل کالجز اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان نجی کالجز کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے ان کے تعلیمی معیار پر اثر پڑ سکتا ہے۔دھیان رہے کہ یہاں ٹیوشن فیس کے لیے18 لاکھ روپے کی حد مقرر کی گئی ہے جبکہ دیگر اخراجات علیحدہ ہیں۔ ہوسکتا ہے نجی کالجز ٹیوشن فیس میں کم ہونے والی بقیہ رقم دیگر امور میں شامل کردے۔ لہذا اس معاملے کو مزید شفافیت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔