سوشل میڈ یا پر میرے خلاف بے سروپامہم چلائی گئی

خلیل الرحمان قمر ایک ایسے رائٹر ہیں جن کا لکھا ہواڈرامہ شائقین بہت ہی شوق سے دیکھتے ہیں۔ میرے پاس تم ہو کے بعدان کا ڈرامہ ’’جنٹلمین‘‘ آن ائیر گیا اسکی مرکزی کاسٹ میں ہمایوں سعید ،یمنہ زیدی اور عدنان صدیقی تھے۔اس ڈرامے کے بعد ان کا ڈرامہ ’’سن میرے دل ‘‘ آن ائیر گیا ہے۔ جس کی مرکزی کاسٹ میں وہاج علی ، مایا علی ، حراما نی اور اسامہ خان ہیں اس ڈرامے پر خاصی تنقید بھی کی جا رہی ہے۔خلیل الرحمان قمر اکثر اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ نوائے وقت نے ان سے گزشتہ دنوں خصوصی انٹرویو کیا ، اور ان سے مختلف سوالا ت کے جوکہ نذر قارئین ہیں۔

نوائے وقت:آپ کا لکھا ہوا ڈرامہ ’’سن میرے دل‘‘ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اس تنقید کو کتنا جائز سمجھتے ہیں؟ 
خلیل الرحمان قمر:جو اداکارائیں بھی میرے ڈرامے پر تنقید کررہی ہیں ان میں سے میں نے کبھی کسی کے ساتھ کام نہیں کیا ، اور یہ بہت بڑا المیہ ہوتا ہے ، یہ سب میری سینئرز ہیں میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ رہی بات ڈرامے کی کہانی کی ، جب چھبیس اقساط کے ڈرامے کو پینتیس اقساط تک لیکر جائیں گے تو یقینا شائقین کی دلچپسی کم ہوجائیگی اور وہ تنقید کریں گے ، چینل اور ڈائریکٹر نے اس ڈرامے کے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔ ان کو ڈرامے کی کہانی کو نہیں کھینچنا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے دیکھوں تو تنقید کرنے والے حق بجانے نظر آتے ہیں۔ 
نوائے وقت:اس ڈرامے میںشوہر اپنی بیوی کو دو ٹکے کی کہتا ہے ، حالانکہ وہ بیوی اپنے شوہر کی وفادار ہے، پھر کیوں ایسا ڈائیلاگ لکھا گیا ؟ 
خلیل الرحمان قمر:لڑکی کا جو شوہر ہے وہ بنیادی طور پر ایک گھٹیا آدمی ہے ، مرد نے جب عورت پر ظلم کرنا ہوتا ہے اسکو تنگ کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کے لئے ایسی بعض اوقات ایسی زبان استعمال کرتا ہے اور اس نے ہی دو ٹکے کی نہیں کہا بیوی نے بھی اسکو گالی دی، تو بنیادی طور پر دونوں کے اندر کے جذبات تھے جو دونوں نے لڑائی کے دوران باہر نکالے۔ 
نوائے وقت:نادیہ خان،مرینہ خان اس ڈرامے پر تنقید کررہی ہیں اس پر کیا کہیں گے؟ 
خلیل الرحمان قمر:میں ان خواتین کو ڈسکس ہی نہیں کرنا چاہتا ، ان کو میں نے کبھی کاسٹ نہیں کیا بس اسکا غصہ نکال رہی ہیں ، اور جتنا وہ ڈرامے کو سمجھتی ہیں میں یہ بھی جانتا ہوں۔
نوائے وقت:جنٹلمین ڈرامے کی بھی بڑی کاسٹ تھی یہ ڈرامہ بھی تنقید کی زد میں رہا کیا کہیں گے ؟ 
خلیل الرحمان قمر:میں کبھی بھی ڈرامے کے معاملے میں تجربہ نہیں کرتا لیکن دو نئے ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے کے لئے اس وقت مانا جب میرا موڈ ہی نہیں تھا تجربہ کرنے کا۔ لیکن اس کے نتائج برے برآمد ہوئے۔ جنٹلمین کے بہت سارے سینز شوٹ نہیں ہوئے ، مکالمے کی بنت کا خیال نہیں رکھا گیا ، میں نے جہاں سین ختم کیا ڈائریکٹر نے کہیں اور ختم اور شروع کیا۔ ڈرامے کا ڈائریکٹر کہیں گھر میں ہی ڈائریکشن سوچ کر بیٹھا ہوا تھا ، میں تو یہ کہوں گا کہ ایک گھٹیا ڈائریکٹر نے جنٹلمین کا بیڑا غرق کر دیا۔ جس کا میرے اندر بہت زیادہ غم ہے ، جنٹلمین وہ ڈرامہ ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے لیکن اسے برباد کر دیا گیا۔
نوائے وقت:آپ نے ماہرہ خان کے ساتھ کام نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی کام کررہے ہیںکیوں؟ کیا صلح ہو گئی ہے؟
خلیل الرحمان قمر:میں بنیادی طور پر ایک رحم دل آدمی ہوں ، اس لئے ماہرہ خان کے ساتھ کام کررہا ہوں ، ہماری آج بھی بول چال نہیں ہے اور شاید کبھی ہو گی بھی نہیں۔ اس نے ماروی سرمد والے معاملے میں ٹویٹ کے ذریعے مجھے گالی دی یہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ 
نوائے وقت:مہوش حیات سے گلہ رہا کہ اس نے آپ کی فلم چھوڑی تو کیا یہ کسی فنکارکا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کرے ؟
خلیل الرحمان قمر:ٹھیک ہے مہوش حیات کے پاس حق تھا اس نے وہ فلم چھوڑ دی ، اس نے وہ حق استعمال کر لیا ، میرے پاس بھی حق ہے میں بھی اب اس حق کا استعمال کررہا ہوں ، میں اس کے ساتھ کام نہیں کروں گا یہ میرا حق ہے۔ 
نوائے وقت:آپ نے یہ بھی کہا کہ آپ کوسکرپٹ اللہ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں اس بات کا کیا مطلب ہے ؟
خلیل الرحمان قمر:تنقید ہمیشہ دلیل کے ساتھ ہوتی ہے، حسد کو تنقید کا نام نہ دیں۔ اگر کسی کے پاس لکھنے کا ہنر ہے تو وہ اس شخص کو اللہ کی طرف سے ہنر عطا ہوا ہے ، یہ ایسا ہنر نہیں ہے جو کہ سیکھ کر کوئی لکھ لے ، اللہ جسے یہ ہنر دیتا ہے بس وہی لکھ سکتا ہے، اگر سیکھ کر یہ کام آجاتا تو پھر تو میں بھی مان لوں کہ میں نے غلط کہا کہ اللہ کی طرف سے مجھے سکرپٹ نازل ہوتے ہیں ،جب سیکھنے سے یہ کام نہیں کیا جا سکتا اللہ کے عطا کئے جانے کے بعد ہی لکھا جا سکتا ہے تو میری بات غلط تو نہ ہوئی کہ مجھے سکرپٹ اللہ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں اور میں ان کا محافظ ہوں۔ 
نوائے وقت:بہت سارے لوگوں کی رائے ہے کہ آپ میں بہت زیادہ تکبر ہے ؟
خلیل الرحمان قمر:یہ بات کئی بار کلمہ پڑھ کر کہہ چکا ہوں کہ میں کچھ بھی ہو سکتا ہوں متکبر نہیں ہو سکتا ،میری کیا اوقات ہے کہ میں غرو ر اور تکبر کروں۔ ہماری عادت ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں رائے سنی سنائی باتوں سے قائم کر لیتے ہیں۔ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ 
نوائے وقت:میں منٹو نہیں ہوں اس ڈرامے کی خاص بات کیا ہے؟
خلیل الرحمان قمر:یہ بدلے اور محبت کی کہانی ہے ،اس میں سجل علی نے کام کیا وہ بہترین اداکارہ ہے۔ ہمایوں سعید نے ہمیشہ ہی ثابت کیا ہے وہ اس ملک کا سٹار ہے۔اس ڈرامے میں سجل اور ہمایوں کو یقینا ایک ساتھ بہت زیادہ پسند کیا جائیگا۔ 
نوائے وقت:انڈسٹری کو بند ہوئے بھی بیس سال ہو چلے لیکن ابھی تک ایک دوسرے پر الزام لگایا جا رہا ہے کیا کہیں گے ؟
خلیل الرحمان قمر:جب دادا فوت ہوجائے تو سب ایک دوسرے پر الزام ڈالتے ہیں کہ تم ہسپتال نہیں لیکر گئے ، تم نے دوائی کے پیسے نہیں دئیے ، تم نے خیال نہیں کیا۔غم یہ نہیں کہ کس نے کیا کیا ، غم یہ ہے کہ فلم انڈسٹری ہی مر گئی۔ ہمارے ہاں ایک وقت میں ایسی فلمیں بنتی تھیں کہ جن سے ہماری تربیت ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ یاد رکھیے گا کہ جن ملکوں میں فلم انڈسٹری ختم ہوجاتی ہے وہاں دہشت گردی اوپر آتی ہے ہمیں اپنی فلم انڈسٹری کو اوپر لانا ہو گا۔ 
نوائے وقت:کیا کسی کو کسی فنکار کی ذاتی زندگی ڈسکس کرنی چاہیے ؟ 
خلیل الرحمان قمر:نہیں بالکل ایسا نہیں ہونا چاہیے ہمیشہ کسی بھی فنکار کی پروفیشنل لائف ڈسکس ہونی چاہیے ذاتی نہیں، ناصر ادیب سے یہ غلطی ہوئی اور ہوجایا کرتی ہیں غلطیاں ہم خدا تو نہیں ہیں، جیسے ہی ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے معافی مانگ لی۔ناصر ادیب نے اپنی غلطی مان کر بڑے آدمی ہونے کا ثبوت دیا۔ 
نوائے وقت:پچھلے برس آ پ شدید تنقید کی زد میں رہے کیا احساسات تھے اس وقت ؟
خلیل الرحمان قمر:سوشل میڈیا پر جو کچھ میرے خلاف ہوا اس کا دکھ ہوا مجھے ، کسی نے میرے ان سات گھنٹوں کو ڈسکس نہیں کیا جس کا عذاب میں نے بھگتا ،جنہوں نے میرے ساتھ زیادتی کی اللہ انکو کبھی معاف نہیں کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن