اور اب مدرٹریسافائونڈیشن ہندوتوا کی زد میں !

بھارت میں تقسیم ہند کے فوراً بعد سے ہندو انتہا پسندوں نے مسلمان اقلیت کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کوئی ایک بھی سال 1947ء کے بعد سے ایسا نہیں گزرا جب بھارت کے کسی نہ کسی شہرمیں مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا نہ کیے گئے ہوں۔ حالانکہ اس طرح کے تمام فسادات جن میں مسلمانوں کی املاک کو لوٹا یا جلایا جاتا ، درجنوں مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا، بچوں کو ترشول ونیزوں میں پروکر ہوائوں میں اچھالا جاتا اور مسلمان خواتین کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔یہ سب اقوام متحدہ کے طے شدہ ضابطوں و اصولوں کے مطابق انسانی نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے لیکن بھارتی میڈیا اسے ہندومسلم فسادات قرار دے کر مسلمانوں کو بھی قصور وار ٹھہراتا رہا ہے تاکہ بھارت کا ’’سیکولرازم ‘‘کا ڈھونگ برقرار رہے اور دنیا اسے سب سے بڑی جمہوریت کا لقب دے کر وہاں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمان اقلیت کے خون کے ساتھ کھیلی جانے والی ہولیوں کو جمہوریت میں پیداہونے والے اختلافات کا حصہ سمجھ کر درگزر کرتی رہے ۔ کانگریس جیسی سیکولرازم کی نام نہادد عوے دار جماعت کے دورحکومت میں بھارت میں جب کبھی کہیں مسلم کش فسادات برپا ہوتے تو حکمران کانگریس جماعت اس کی زبانی کلامی مذمت کرتی اور فسادات برپا کرنے والوں کو انصاف کے کٹہریے میں لانے کے اعلانات اس قدر جذباتی انداز سے کیے جاتے کہ دنیا واہ واہ کر اٹھتی اور بھارت میں مسلمان اقلیت بھی مطمئن ہوکر بیٹھ جاتی۔ لیکن گزشتہ 74برسوں میں آج تک فسادات میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرنے والے کسی ہندو کو سزا نہیں ملی۔ گرفتاریاں ضرور ہوئیں بعض مقدمات عدالتوں تک بھی گئے لیکن تمام ہندوقاتلوں کو عدم ثبوت یا گواہیاں نہ ملنے کی وجہ سے بری کردیا جاتا ۔ بعض واقعات میں مسلمان متاثرین کو ہی فسادات بھڑکانے کا مرتکب قرار دے کرگرفتار کیا جاتا، یہ مقدمات سالہا سال چلتے رہتے اور بے گناہ مسلمان مقدمات کے فیصلوں کا انتظار کرتے جیل کی قید میں ہی خالق حقیقی سے جاملتے۔ اس پورے عرصہ میںمدرٹریساایک ایسی خاتون تھی جس نے 1950میں بھارت میں اپنے نام سے خیراتی ادارے کی بنیاد رکھ کر یتیم بچوں ، بیوہ خواتین اور نادار و غریب افراد کی کفالت کا سلسلہ شروع کر نے کے علاوہ بھارت میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج کا آغاز کیا جس سے مستفید ہونے والوں کی اکثریت نچلی ذات کے ہندووں پر مشتمل ہوتی۔ مدرٹریسا مسیحی مذہب سے تعلق کی وجہ سے عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنی ۔ بھارت میں پسے ہوئے طبقات کے لیے بے لوث خدمات کے پیش نظر اُسے دنیا بھر سے امداد ملنا شروع ہوگئی ۔ بیرون
 ملک سے حاصل ہونے والی امداد کے آسا ن حصول کیلئے مدرٹریسا نے اپنی فائونڈیشن کے نام پر بینکوں میں اکائونٹ کھولے ،بھارت میں سیکولرازم کی نمائشی علمبردار کانگریس جماعت مدرٹریسا کو حکومتی سطح پر انتظامی امور میں سہولتیں فراہم کر کے دنیا کو تاثر دیتی رہی کہ دیکھو بھارت میں اقلیتوں کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بھارت کے حکمران اقلیتوں پر ہندو انتہا پسندوں کے نسل کشی پر مبنی حملوں و مسلم کش فسادات کو ہمیشہ مدرٹریساکی خدمات کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے رہے ۔ بھارت میں سرکاری و نجی سطح پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو حکومتوں کی طرف سے خصوصی ہدایت تھی کہ مدرٹریساکے حوالے سے خبروں کو بھرپور کوریج دی جائے تاکہ بھارت کا ’’سوفٹ امیج‘‘ دنیا کے سامنے برقرار رہے۔ مدرٹریساکی خدمات سے متاثر ہوکر مغربی ممالک سے ہرسال سینکڑوں تعلیم یافتہ مسیح خواتین ، رہبانیت اختیار کر کے بھارت پہنچتیں اور مدرٹریسافائونڈیشن کا حصہ بن کر بھارت کے پسے ہوئے طبقات کی خدمت میں مصروف ہوجاتیں۔ بعض چند سال کی خدمات سرانجام دینے کے بعد واپس لوٹ جاتیں اور باقی نے ہمیشہ کیلئے اپنی زندگی مدرٹریساکے ساتھ مل کر بھارت میں غریبوں کی خدمت کیلئے وقف کردیں۔ 
1997میں مدرٹریساکا انتقال ہوا تو تقریباً تین ہزار غیر ملکی راہبائین مدرٹریسا فائونڈیشن کا حصہ بن کر بھارت کے طول و عرض میں خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسیح اقلیت پر ہندو انتہا پسندوں کے حملوں کی پوری ایک تاریخ ہے لیکن ہندو غنڈوں نے مدرٹریساسے منسلک افراد کو نشانہ بنانے سے اجتناب کیا۔ وہ جانتے تھے کہ اس طرح کے کسی اقدام کو بھارت سرکار معاف نہیں کرے گی کیونکہ یہ ان کی’’ سیاسی مجبوری‘‘ ہے ۔حالانکہ راشٹریہ سیوک سنگھ ، بجرنگ دل یا اس طرح کے دیگر ہندو تواگروہ مدرٹریسااور اُس کی خدمات کو بھارت میں اپنے مقاصد کی آڑ میں رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ تاہم 2014میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مدرٹریسافائونڈیشن کیلئے بھی مشکلات پیدا کرنی شروع کردیں۔ مغربی بنگال میں جہاں مدرٹریسافائونڈیشن کا ہیڈ کوارٹر تھا وہاں ریاستی سطح پربی جے پی مخالف حکومت کی وجہ سے ہندو انتہا پسند خاموش رہے لیکن بی جے پی کی حمایت یافتہ ریاستوں میں مدرٹریسافائونڈیشن سے وابستہ مسیح ملازمین پر تشدد اور خواتین راہبائوں کو عصمت دری کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔ بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے خبروں کا ہمیشہ بلیک آئوٹ کیا ۔ البتہ دہلی میں مودی سرکار پر دبائو برقرار رہا کہ وہ بھارت میں ہندو توا افکار کے فروغ کیلئے مدرٹریسافائونڈیشن کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرے ۔ 2019میں نریندر مودی دوتہائی اکثریت کے ساتھ بھارت میں دوبارہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو 15 اگست 2019کو مغربی بنگال میں بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے لیڈران نے مدرٹریسافائونڈیشن پر ہندوں کو مذہب تبدیل کرکے عیسائی بنانے کا الزام لگاکر اس کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کردیا۔ بی جے پی کے بہت سے لیڈران نے اس مطالبے کی حمایت کی لیکن 2020کے آغاز کے ساتھ ہی عالمی سطح پر پھوٹ پڑنے والی کرونا وبا کی بدولت ہندو انتہا پسند مصلحتاً خاموش ہوگئے ۔مگرمدرٹریسافائونڈیشن کیلئے کام کرنے والے افراد پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا گیااور دسمبر 2021کے آغاز میں نریندر مودی کی آبائی ریاست گجر ات میں پولیس کو چند ہندوئوں نے تحریر ی طور پر درخواست دی کہ مدرٹریساکے ادارے میں ہندو بچیوں کو مسیح مذہب اختیار کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا اور مدرٹریساکے خیراتی ادارے میں کام کرنے والی چند ہندو لڑکیوں سے مبینہ طور پر پوچھ گوچھ کی تو انہوں نے مذہب تبدیلی کے حوالے سے الزامات کی تصدیق کردی۔ مغربی بنگال میں مدرٹریسافائونڈیشن کے مرکز نے گجرات کے حوالے سے منظرعام پر آنے والی خبروں کو من گھڑت قراردیتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ مودی سرکار کوئی انتہائی قدم بھی اٹھاسکتی ہے ۔ نریندر مودی حکومت نے 25دسمبر 2021کو عین کرسمس کے موقع پر بھارت میں مدرٹریسافائونڈیشن کے تمام غیر ملکی بینک اکائونٹ منجمند کردیے ۔ نریندر مودی کے اس اقدام کو بھارت میں مسیحوں کیلئے کرسمس کا تحفہ قرارد یا گیا۔ بینک اکائونٹ منجمند ہونے کی وجہ سے مغربی بنگال میں مدرٹریسافائونڈیشن کے ذمہ داران نے احتجاج کرتے ہوئے بھارت سرکار کے اقدام کو بھارت کے ان تمام نادار اور غریب طبقات کا معاشی قتل عام قرارد یا جو مدرٹریسافائونڈیشن کے زیر کفالت تھے۔ بھارت سرکار کے’’ مذہب بدلی‘‘ جیسے الزامات سامنے آنے کے بعد گجرات سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسیحی اقلیت پر حملے شروع ہوگئے جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ مغربی دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار ممالک تاحال خاموش ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کی طرف سے خاموشی کا یہ سلسلہ بھارت سے وابستہ مفادات کی بدولت آئندہ بھی جاری رہے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن