مولانا مجیب الرحمن انقلابی
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سابق مرکزی امیر اورجمعیت علماء اسلام پاکستان کے سابق مرکزی سرپرست اعلی،سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ، عالم اسلام کے عظیم علمی و روحانی شخصیت، لاکھوں مریدوں کے مرشد، قطب الاقطاب، شیخ المشائخ حضرت اقدس خواجہ خان محمد صاحب علم و عمل، زہد و تقویٰ، اخلاص و للہیت کے پیکر اور اہل حق کی جیتی جاگتی عملی تصویر تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو محبوبیت و مقبولیت سے خوب نوازا تھا، آپ ان عظیم اور خوش قسمت لوگوں میں سے تھے کہ جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے، جن کی محفل میں بیٹھ کر انسان روحانی سکون محسوس کرتا، آپ کے ’’دست حق‘‘ پر لاکھوں لوگوں نے بیعت کرتے ہوئے تذکیہ نفس کیا۔
حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب1914 ء میں موضع ڈنگ ضلع میانوالی خواجہ عمر کے ہاں پیدا ہوئے، آپ کے والد خواجہ عمر اتنہائی متقی، نیک سیرت اور خدا ترس انسان تھے۔ آپ نے چھٹی جماعت تک سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد قرآن مجید اور ابتدائی دینی کتب کی تعلیم خانقاہ سراجیہ میں حاصل کی، مزید تحصیل علم کیلئے آپ جامعہ اسلامیہ ڈاھبیل تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا سید محمدیوسف بنوری، مولانا حافظ عبد الرحمن امروہی، مولانا ادریس سکروڈھوی اور مولانا عبد العزیز کیمبل پوری سے جلالین، مشکوۃ شریف، ہدایہ اور مقامات حریری سمیت دیگر کتب پڑھیں، جامعہ اسلامیہ ڈاھبیل سے تعلیم کے بعد آپ دینی علوم کی تکمیل کے لئے بر صغیر کی مشہور و معروف دینی و روحانی درسگاہ ’’دارلعلوم دیوبند‘‘ تشریف لے گئے جہاں آپ ? نے مولانا اعزاز علی صاحب اور دیگر نامور اساتذہ کے علاوہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ? سے بھی پڑھنے اور ان کے شاگرد خاص ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا، مولانا حسین احمد مدنی? نے آپ ? کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ خواجہ خان محمد سے دین کا بہت بڑا کام لیں گے۔ 1941 ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورہ حدیث کرتے ہوئے سند فراغت حاصل کر کے آپ واپس خانقاہ سراجیہ کندیاں تشریف لائے اور دینی کتب پڑھانے میں مشغول ہوگئے خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت عامہ عطا فرمائی ہے اور اس کا فیضان آج پوری دنیا میں جاری ہے لاکھوں لوگوں کے دل اس خانقاہ کے ساتھ وابستہ ہیں اس خانقاہ میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، امیری شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا مفتی محمود ، علامہ سید محمد یوسف بنوری، حضرت عبدالقادر رائے پوری اور مولانا غلام غوث ہزاروی سمیت اپنے اپنے دور کے بڑے بڑے اکابر، علماء و صلحاء تشریف لاتے رہے، اس خانقاہ سراجیہ کے بانی حضرت خواجہ ابو سعد احمد خان ہیں جنہوں نے یہ خانقاہ اپنے مرشد و مربی حضرت خواجہ محمد سراج الدین کے نام منسوب کرتے ہوئے تعمیر کی اور آج یہ خانقاہ پوری دنیا میں مشہور اور مرکز رشد و ہدایت ہے، حضرت مولانا ابو سعد احمد خان نے تیس سال تک لوگوں کے دلوں کوذکر الٰہی سے منور کیا، اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد پر بھی خصوصی توجہ فرمانے کے ساتھ ساتھ اپنی صاحبزادی کے ساتھ ان کا نکاح بھی فرمایا...
حضرت ابو سعد احمد خان کی وفات کے بعد مولانا عبد اللہ جانشین بنے ۔ مولانا خواجہ خان محمد نے اپنے مربی ومرشد مولانا عبداللہ سے تزکیہ و سلوک کی منازل طے کرتے ہوئے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی تحصیل و تکمیل کے ساتھ ساتھ سلسلہ قادریہ، سہروردیہ، چشتیہ اور دیگر سلاسل کی بھی خلافت سے سرفراز ہوئے۔ مولانا عبد اللہ کی رحلت کے بعدحضرت خواجہ خان محمد خانقاہ سراجیہ پر مسند نشین ہوئے اور تقریبا ساٹھ سال تک مسلسل آپ کا وفات تک فیضان جاری رہا، اس خانقاہ کو اللہ نے ’’مرجع خلائق‘‘ بنا دیا تھا۔اس کے بانیان نے ایک وسیع اور عظیم لائبریری بھی قائم کر رکھی تھی جس میں انتہائی قیمتی اور نایاب کتب موجود تھیں لوگ دور دراز سے سفر کرتے ہوئے خانقاہ سراجیہ میں آکر روحانی و علمی پیاس بجھایا کرتے تھے۔
آپ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی 1977ء میں وفات کے بعد سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر کے منصب پر فائز ہوئے اور وفات تک اس منصب پر رہتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے خلاف پوری دنیا میں سرگرم عمل رہے، امریکہ و برطانیہ سمیت درجنوں ممالک کا سفر کرتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنے۔ آپ کی عمر 90 سال سے زائد تھی تقریبا ہر سال حج کی سعادت حاصل کرتے اب تک 65 کے قریب حج کیئے، مولانا سید محمد یوسف بنوری کے دورِ امارت میں آپ نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر کی حیثیت سے کام کیا ۔ آپ نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر ہونے کے باوجود کبھی تقریر نہیں کی بلکہ خاموشی کے ساتھ ذکر و مراقبہ کرتے اور پھرمقرر کو داد بھی دیتے۔
آپ نے کئی ممالک میں ختم نبوت کے دفاتر و مراکز قائم کئے 1953 ء کی تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے میانوالی جیل، بورسٹل جیل اور سینٹر ل جیل لاہور میں قید و بند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا،آپ اہل حق کی تمام جماعتوں اور تنظیموں کے سرپرست و مربی اور بڑے بڑے علماء و قائدین خانقاہ سراجیہ میں حضرت مولانا خواجہ خان محمد کے پاس مشورے اور دعاؤں کیلئے حاضری کو اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی منظوری مکہ مکرمہ میں خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد نے مسجد الحرام بیت اللہ کے مدرس شیخ حرم فضیلالشیخ مولانا محمد مکی حجازی حفظہ اللہ اور انٹرنیشنل ختم نبوت موؤمنٹ کے موجودہ مرکزی امیر فضیل الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ حفظہ اللہ اور میاں فضلِ حق احراری (مرحوم) کی موجود گی میں دی اس دوران آپ نے مطافِ حرم میں جماعت کی کامیابی کیلئے خصوصی دعا بھی کی، انٹر نیشنل ختم نبوت مؤومنٹ اپنے بانیان اور عہدیداروںموجودہ مرکزی امیرفضیل الشیخ مولانا ڈاکٹر سعیداحمد عنایت اللہ مدظلہ اورحضرت مولانا ڈاکٹراحمد علی سراج مدظلہ کی کوششوں اور محنتوں سے پوری دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اورنسل نو کے ایمان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
آپ کی ذات کا خاصہ تھا، رمضان المبارک کے مہینہ میں خانقاہ سراجیہ میں ملک بھر سے ہزاروں لوگ حاضر ہوتے، اعتکاف بیٹھتے اور روحانیت کی منازل طے کرتے،آپ جامعہ اشرفیہ لاہور سمیت سینکڑوں دینی مدارس کے سرپرست تھے اپنی وفات سے قبل اپنے آخری سفر لاہور میں حضرت مولانا خواجہ خوان محمد صاحب نے جامعہ اشرفیہ لاہورکے مہتمم حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مدظلہ کی درخواست پر کمال شفقت فرماتے ہوئے جامعہ اشرفیہ لاہور تشریف لائے اس موقعہ پر حضرت مولانا خواجہ خان محمدنے جامعہ اشرفیہ،امت مسلمہ، دینی مدارس اور ملک و قوم کی سلامتی کیلئے اتنہائی رقت امیز دعاء بھی فرمائی۔ وفات کے وقت حضرت خواجہ خان محمد کی عمر 90 برس سے زائد تھی بڑھاپے اور نقاہت کے سوا بظاہر کوئی بیماری نہ تھی لیکن آخری دنوں میں یرقان کے شدید حملہ کی وجہ سے ملتان میں زیر علاج تھے اور پھر 5مئی 2010 ء بروز بدھ بعد نماز مغرب رشد و ہدایت کا یہ سورج اپنے لاکھوں مریدین اور عقیدت مندوں کو اپنی جدائی میں روتا تڑپتا چھوڑ کر غروب ہوگیا ملک بھر سے لاکھوں افراد موجودگی میںآپ کو خانقاہ سراجیہ کے قبرستان میں آپ کے مرشد مولانا عبد اللہ لدھیانوی کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔
? خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را