پاکستان کا ماسکو سکیورٹی کانفرنس میں دوٹوک موقف مسئلہ کشمیر‘ افغانستان سے سرحد پار دہشت گردی اور شام میں امریکی مداخلت

روسی دارالحکومت 'ماسکو' میں چھٹی بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس کا گزشتہ روز اختتام ہوگیا۔اجلاس میں پاکستانی وزیر دفاع سمیت 80 ممالک کے وفود شریک ہوئے۔ عالمی سیکیورٹی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا تھاکہ پاکستان افغان حکومت سے توقع رکھتا ہے کہ وہ پاکستا ن پر اثر انداز ہونیوالے سرحد پار حملوں کے ذمہ دار دہشتگرد گروپوں کےخلا ف کاروائی کیلئے موثراقدامات اٹھائے گا۔انھوںنے کہاکہ پاکستا ن نے خصوصی آپریشنز کے ذریعے افغان سرحد پرموجود دہشتگرد گروپوں کے نیٹ ورکس کا خاتمہ کردیا ہے۔ دہشتگردوں کیخلاف پاکستان کی کاروائیاں انتہائی کامیاب رہی ہیں جنھیں بین الاقومی برادری کی طرف سے بھی تسلیم کیا گیا ہے۔انھوںنے کہاکہ اس وقت متاثرہ علاقوں میں ہمارے فوجی آپریشن میں ترقی اورجامع اقتصادی حکمت عملی شامل ہے۔پاکستان افغانستان میں امن واستحکام کے حصول اور افغان قیادت کے ساتھ امن عمل کی حمایت کیلئے کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اسے حل نہ کیا گیا تو یہ پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے خطرہ ہوگا، 21 ویں صدی کئی کثیرالجہت قوتوں کا دور ہے۔ دہشت گردی، سماجی و اقتصادی عوامل اور ماحولیاتی تبدیلی مشترکہ چیلنج ہیں، کانفرنس مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی وضع کرے۔دی نیشن کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ کا شام پر 6 اپریل کو کیا جانے والا میزائل حملہ بیرونی مداخلت ہے۔ یہ بات انہوں نے روسی خبر ایجنسی سپوتنک اور روسی وزیر دفاع کے ساتھ ملاقات میں کہی۔
پاکستان کو کچھ عرصہ سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس دہشت گردی کے ڈانڈے بیرون ممالک بالخصوص پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے ملتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے درآمد ہوئی‘ بھارت نے ہمیشہ سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے اپنا جنونی کردار ادا کیا ہے۔ اس نے پاکستان سے دشمنی کے جنون میں مشرقی پاکستان کو الگ کردیا‘ قیام پاکستان کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر پیدا کیا اور اس پر مسلسل منافقت دکھا رہا ہے۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا جسے کبھی ایفا نہیں کیا گیا بلکہ کچھ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کو مستقل اپنا حصہ قرار دے دیا۔ اب اخلاقی‘ انسانی اور سفارتی حدیں عبور کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتانے لگا ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرنے ہی پر اکتفا کیا۔ بھارت کو یہ بھی قبول نہیں‘ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف آنے پر تیار نہیں۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے ٹاڈا اور پوٹا جیسے انسانیت سوز قوانین نافذ کئے اور کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے کیلئے جبروبربریت کی انتہاءکردی۔ بھارت حریت پسندوں کو دہشت گرد اور پاکستان کو انکی اخلاقی مدد پر بھی دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دے کر دنیا بھر میں بدنام کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنی سفاکیت پر پردہ ڈالے رکھنے کیلئے وہ دنیا کو گمراہ کرنے کیلئے میڈیا اور سفارتکاری سمیت ہر ذریعہ اور حربہ بروئے کار لاتا ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے پاکستان میں اپنے ایجنٹ داخل کروانے کو ہمیشہ اولین ترجیح میں رکھا۔ ہماری حکومتوں کے نرم رویوں کے باعث اس نے کلبھوشن جیسے حاضر سروس فوجیوں کو جاسوسی کیلئے بھجوانے کا حوصلہ پایا۔ ایسا جاسوسی کی تاریخ میں خال خال ہی ہوا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے گوریلا وار شروع کردی۔ افغانستان کا امن بھی انفراسٹرکچر کی طرح برے طریقے سے تباہ ہوگیا۔ امریکہ کا ساتھ دینے سے پاکستان بھی افغانستان جیسی دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور افغانستان کو پاکستان میں مداخلت کیلئے استعمال کرنے میں مزید تیزی پیدا کردی۔ بھارت کے افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کے ثبوت اقوام متحدہ اور امریکہ کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔ سابق طالبان ترجمان احسان اللہ احسان نے انکشاف کیا ہے کہ این ڈی ایس اور ”را“ مل کر طالبان کی پاکستان کیخلاف کارروائیوں میں مدد کرتی ہیں۔ این ڈی ایس افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ہے‘ اس کا کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں معاونت افغان انتظامیہ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان نے سرحد کے قریب پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث گروہوں کیخلاف کارروائی کی تو افغان حکومت کی طرف سے اس پر احتجاج کیا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ماسکو کانفرنس میں افغان سرحد پر موجود دہشت گرد گروپوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔
پاکستان میں مداخلت کیلئے انڈیا افغان گٹھ جوڑ میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا‘ پاکستان اپنے ہمسایہ برادر اسلامی ملک میں قیام امن کیلئے ہر طرح کے تعاون کیلئے تیار ہے مگر وہاں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے تخریب کاری اور دہشت گردی کے منصوبے بنتے ہیں۔ بھارت کے دہشت گردوں کی تربیت کیلئے مراکز قائم ہیں۔ افغانستان میں پاکستان سے فرار ہونیوالے دہشت گردوں کے ٹھکانے بھی موجود ہیں۔ یہ عوامل پاکستان کو ریڈ کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن پاکستان اس حد تک جانے سے گریز کرتا ہے۔ اس کا بہتر حل بارڈر مینجمنٹ کی صورت میں نظر آیا جس کی افغان حکومت بھارت کے ایماءپر شدید مخالفت کررہی ہے۔ اسکے باوجود انٹری پوائنٹس پر گیٹ لگا دیئے گئے اور پورا بارڈر سیل کرنے کیلئے باڑ لگائی اور دیوار بنائی جارہی ہے۔
بھارت پاکستان کشیدگی اور دشمنی کا بنیادی اور سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو پانی سمیت کئی تنازعات طے ہو سکتے ہیں۔ دشمنی کی جڑ کٹ سکتی ہے۔ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ کشمیریوں کو ظلم و جبر سے اپنے ساتھ ملائے رکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی حل کا متقاضی ہے جس کی آوازیں بھارت کے اندر سے بھی اٹھتی رہی ہیں۔ آج بھارتی سابق آرمی چیف ویدپرکاش ملک نے بھی کشمیر کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔ پونا میں سرحد کالج برائے آرٹس ‘کامرس اور سائنس میں خطاب کرتے ہوئے وید پرکاش ملک نے کہا‘ کشمیر سمیت تنازعات کا خاتمہ صرف اور صرف فوج کا کام نہیں ہے، ان تنازعات کو سیاسی سطح پر حل کیا جانا چاہیے۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کا تمام تر بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈال کر توقع کی جارہی ہے کہ فوج اکیلے یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی حالانکہ یہ ناممکن ہے۔ اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنا زیادہ ضروری ہے۔
خواجہ آصف کا ماسکو میں سکیورٹی کانفرنس میں خطاب کا اہم پہلو شام میں امریکی مداخلت پر دوٹوک موقف بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں حکومت تبدیل کرنے کے حوالے سے جنگجو گروپوں کی مدد لینا درست نہیں۔ شام میں کسی بھی قسم کی مداخلت کیخلاف ہیں۔ خواجہ آصف نے پاکستان کی ماسکو کانفرنس میں بجا نمائندگی کی اور افغانستان سے سرحد پار حملہ آوروں کیخلاف افغانستان سے کارروائی کا مطالبہ کیا اور عالمی برادری پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دیا۔ ایسے معاملات اٹھانے کا یہ بہترین فورم تھا جس میں 80 ممالک کے وفود اور ایک ہزار سے زائد نمائندہ شخصیات شریک تھیں۔

ای پیپر دی نیشن