یوم قائداعظم‘ کرسمس اور میرے مشفق اساتذہ

بانی پاکستان محمدعلی جناح کے یوم پیدائش اور کرسمس کے حوالے سے 25 دسمبر کا دن بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ وطن عزیز میں جہاں یوم قائداعظم کی خوشیاں منائی جاتی ہیں‘ وہیں کلیسائوں میں مسیحی برادری خداوند یسوع مسیح کی پیدائش کے اس دن کے حوالے سے ’’کیئرلز‘‘ زبور سے کورس اور عبادات میں شامل بچوں اور بڑوں کی سویٹس اور مٹھائیوں سے تواضع کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی طرح عیسائیوں میں بھی چونکہ متعدد فرقے پائے جاتے ہیں‘ اس لئے عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک Gergorian Calender کے مطابق 25 دسمبر کو ہی کرسمس تہوار منانا درست ہے جبکہ عیسائیت کے دیگر بڑے فرقوں میں نصرانی Docetes آر سی یو Apollic Narian‘ نسطوری اور بت پرستی کیخلاف آواز اٹھانے والا فرقہ Iconoclastic شامل ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے دن کے حوالے سے مبینہ طور پر واضح ابہام آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح اب تک لکھی گئی اینجیلز میں ’’برنباس‘‘ کی لکھی انجیل کو اس لئے بھی زیادہ معتبر تصور کیا جاتا ہے کہ اس انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وہ تعلیمات شامل ہیں جن کی قرآن پاک سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ اس انجیل مقدس میں حضرت یسوع مسیح نے اپنے خدا کا بیٹا ہونے سے ہی انکار نہیں کیا‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بھی بشارت دی ہے۔ برنباس کی لکھی یہ انجیل مقدس 18 برس تک کلیسائوں میں پڑھائی جاتی رہی مگر 496ء میں پادریوں کی ایک کونسل نے اس انجیل کو پڑھنا ممنوع قرار دے دیا۔ اور یوں اس انجیل کو مبینہ طور پر ایک ہزار برس تک یورپی کتب خانوں میں چھپائے رکھا گیا جبکہ Fermarion نامی ایک رہبر نے 1209ء میں اس انجیل مقدس کو ایمسٹرڈم سے ڈھونڈ نکالا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انجیل مقدس آج بھی آسٹریا کی رائل لائبریری میں موجود ہے۔ کوشش ہوگی کہ اپنے کسی آسٹرین ٹور کے دوران اس تاریخی نسخہ کا مطالعہ کر پائوں۔ 
متعدد بار پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ شہر اقبال کی جس مسیحی درسگاہ سے میں نے اپنی ’’کنڈرگارٹن‘‘ اور ابتدائی تعلیم حاصل کی‘ وہ سی ٹی آئی ہائی سکول بارہ پتھر سیالکوٹ آج بھی بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ اس کرسچن ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں دس برس گزارنے پر فخر آج اس لئے بھی ہے کہ باسکٹ بال کی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ انجیل مقدس‘ زبور‘ …‘ مرقس‘ لوقا اور کرنتھیسو تک ابواب کا عمیق نظری سے مطالعہ بھی کیا اور اپنے ان اساتذہ کرام سے تعلیم اور تربیت حاصل کی جن کی تربیت اور محبت سے آج اس مقام پر ہوں۔ 
کرسمس کے اس خصوصی موقع پر مجھے اپنے ان تمام اساتذہ کرام کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرنا ہے جو اس دنیا میں تو نہیں رہے‘ تاہم انکے آسان اور بہترین زندگی گزارنے کے سکھائے ذریں اصول‘ والدین و اساتذہ کی عزت و احترام‘ قوت برداشت پیدا کرنے کے گر اور دنیا میں بڑا آدمی بننے کیلئے سچائی پر ہمیشہ قائم رہنے کا دیا ان کا درس میری عملی زندگی کا آج حاصل بن چکا ہے۔ سکول پرنسپل آنجہانی مسٹر لال موتی لال‘ آنجہانی مسٹر آر این مل‘ آنجہانی مسٹر مبارک‘ آنجہانی مسٹر طفیل‘ آنجہانی مسٹر نہال چند‘ آنجہانی مسٹر یعقوب‘ آنجہانی مسٹر سیموئل‘ آنجہانی مسٹر اکمل‘ آنجہانی مسٹر اقبال‘ آنجہانی مسٹر میسی‘ آنجہانی مسٹر برکت‘ مسٹر عبدالغنی مرحوم‘ مسٹر عبدالرشید مرحوم‘ مسٹر رشید اور مسٹر بشیر۔ اسی طرح میڈموں میں آنجہانی مسز لال‘ آنجہانی مسز سلیم‘ آنجہانی مسز سیموئل‘ آنجہانی مسز صدیق عالم اور آنجہانی مسز الماس کو تاہنوز بھلا نہیں پایا۔ 
اپنے ان تمام مذکورہ اساتذہ کے علاوہ میرے ایک استاد ایسے بھی تھے جن سے میں نے اردو سیکھی‘ اردو پڑھی اور پھر اس اردو کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا۔ مجھے اس وقت یہ قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اردو زبان کی ادائیگی‘ موزوں لفظوں کے انتخاب‘ فقرے کی نوک پلک اور تحریر میں املا اور انشاء کی جو اہمیت مجھے میرے یہ معزز استاد بتانے جا رہے ہیں‘ کل کو ان لفظوں کا یہی خزانہ اور انداز مجھے کالم نگار بنا دیگا۔ جی ہاں! میرے اس استاد گرامی کا نام آنجہانی کے آر ضیاء ہے جو مسیحی دنیا میں ایک ممتاز مسیحی شاعر اور موسیقار کے طور پر آج بھی جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ سیالکوٹ کنونشن اور زبور میں لکھے انکے بے شمار گیت کلیسائی عبادت میں صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ برطانیہ‘ ہالینڈ‘ فرانس اور امریکہ میں بھی گائے جاتے ہیں۔ آنجہانی کے۔ آر ضیاء محض مذہبی شاعر ہی نہیں تھے بلکہ اردو‘ پنجابی میں بھی انہوں نے بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ سکول میگزین کے وہ کئی برس تک مدیر رہے اس لئے میگزین کی گیٹ اپ اور مضامین کے انتخاب میں مجھے ان کا معاون خصوصی ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ چھوٹی بحر کی غزل پر انہیں خاص دسترس حاصل تھی‘ ہارمونیم پلے پر کورس کی دھن تیار کرنے پر انہیں خاص مہارت حاصل تھی۔ انکی ایک شہرہ آفاق غزل کے چند اشعار جو انہوں نے یہ دنیا چھوڑ جانے سے چند ہفتے قبل لکھے۔ 
اس طرح گردش حالات سے دوچار ہوا
اب تو دن بھی یہاں ڈھلتا نہیں دیکھا جاتا
نہ کوئی روٹھنے والا نہ منانے والا
گھر کا بدلہ ہوا نقشہ نہیں دیکھا جاتا
آج احساس ہوا کہ والدین اور اساتذہ جب داغ مفارقت دے جائیں تو محض طالب علم ہی نہیں‘ علم بھی یتیم ہو جاتا ہے۔ 
استاد گرامی کے۔آر ضیاء آج اس لئے بھی شدت سے یاد آئے کہ سکول کی الوداعی تقریب میں صبح کے ’’ماس سیشن‘‘ میں ہارمونیم پر پنجابی کا اپنا جو کورس انہوں نے گایا‘ اسکے ابتدائی بول یہ تھے کہ:
میں خوش ہویا جدوں مینوں آکھن لگے
کہ آئویہو وادے گھر چلیے
انکے یہ بول ہر کرسمس پر مجھے یاد آتے ہیں۔ آہ! کتنا عظیم تھا میرا یہ استاد۔

ای پیپر دی نیشن