تاریخ اسلام کے اوراق حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روشن زندگی، فضائل و مناقب ،سیرت و کردار اور سنہرے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں جس کی ضو فشانی سے قیامت تک آنے والے مسلمان و حکمران ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق ؓ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ جن کے بارے میں حضور ؐنے ارشاد فرمایا کہ! مجھے نبوت عطا ہوئی تو سب نے جھٹلایا مگر ابو بکر صدیقؓ نے مانا اور دوسروں سے منوایا ،جب میرے پاس کچھ نہیں رہا تو ابو بکرؓ کا مال راہِ خدا میں کام آیا جب ابو بکر صدیق ؓ نے مجھے تکلیف میں دیکھا تو سب لوگوں سے زیادہ میری غم خواری کی۔پیکرِ صدق و وفاء سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضور ؐ نے کئی مرتبہ جنت کی بشارت و خوشخبری دی اور عشرہ مبشرہ صحابہ کرامؓ میں بھی آپ کا نام سرفہرست ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی آیات حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شان میں نازل فرمائیں، یہ سعادت و خوش نصیبی بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ کو حاصل ہے کہ آپ کے والدؓ، والدہؓ، اولاد، پوتے اور نواسے بھی حضور ؐ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرتے ہوئے ’’صحابیت‘‘ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور آپ کی بیٹی صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ ؓ کو حضورؐ کی زوجہ محترمہ و ام المومنین ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔
آپ کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق و عتیق لقب ہے والد کا نام عثمان، کنیت ابو قحافہ اور والدہ کا نام سلمیٰ لیکن اپنی کنیت اُمّ الخیر سے زیادہ پکاری جاتی تھیں۔آپ کا تعلق قریش خاندان سے ہے اور چھٹی پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضور اقدس ؐ سے مل جاتا ہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ اسلام قبول کرنے سے قبل ہی پاکیزگی و بلند کردار، اعلیٰ اخلاق، عقل و دانش، فہم و فراست، امانت و دیانت اصابت رائے،حلم و بردباری اور خدا ترسی میں مشہور و بے مثال تھے۔ قریش میں صاحب ثروت اور سب سے زیادہ با اخلاق تھے جو کچھ کماتے غرباء و مساکین پر خرچ کر دیتے۔ آپ نے مکہ شہر میں ایک مہمان خانہ بنا رکھا تھا جہاں باہر سے آنے والے مسافروں کو کھانا اور رہائش مفت دی جاتی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں عرب میں شراب، زنا، جوا، فسق و فجور اور بت پرستی اس قدر عام تھی کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا بہت مشکل تھا لیکن حضرت ابو بکر صدیقؓ اسلام لانے سے قبل بھی پاکیزہ زندگی کی عمدہ مثال بنے رہے ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اس بارے میںخود فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ اپنی عزت و انسانیت کی حفاظت کرتا تھا اس لیے کہ جس نے شراب پی اس نے اپنی عزت و انسانیت کوضائع کر دیا۔ زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی بت کو سجدہ نہ کیا بلکہ موقعہ پا کر میں بت کو توڑ دیتا تھا…
سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ فیصلے کرنے اور فصاحت و بلاغت میں کمال رکھتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی قتلوں اور دیگر معاملات کے فیصلے آپ سے کروائے جاتے اور خون بہا یعنی دیت کی رقم بھی آپ کے پاس جمع کروائی جاتی تھی۔ علم انساب میں بے مثال اور خوابوں کی تعبیر بتانے میںآپ ماہر تھے… حضرت ابو بکر صدیقؓ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ایک دفعہ آپ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے تو وہاں ایک سابقہ آسمانی کتب کا یہودی عالم ’’بحیرا راھب‘‘ سے ملاقات ہوئی جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ تو اس ’’نبی‘‘ کی تابعداری کریگا جس کا زمانہ کو انتظار ہے اور اس کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آ چکا ہے، اور اس نبی کے قرب کی سعادت دوسرے لوگوں کی بسنبت زیادہ پائے گا… اسی طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ تجارت کی غرض سے یمن گئے تو وہاں آپ کی ملاقات آسمانی کتب کے ایک بہت بڑے عالم سے ہوئی جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی علامات و نشانیاں دیکھنے کے بعد کہا کہ پہلی آسمانی کتب میں یہ علامات و نشانیاں اس شخص کے بارے میں ہیں جو نبی آخر الزماںؐ پر سب سے پہلے ایمان لائے گا اور اس کا زبردست معاون ثابت ہو گا اور نبی آخر الزماںؐ کی وفات کے بعد اس کا جانشین و خلیفہ ہو گا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا حضور ؐ کے ساتھ اس سے قبل ہی دوستی و محبت کا بہت گہرا تعلق تھا اور آپ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار سے بہت متاثر تھے… حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیںکہ آسمانی کتب کے علماء کی طرف سے آخری نبی ؐکی آمد کی بشارت و خوشخبری سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ و ہ حضور ؐ ہی کی ذات بابرکات ہے، اور میں اسی وقت ہی ان پر ایمان لے آیا تھا اور میں اس انتظار میں تھا کہ کب آپ اعلان نبوت فرمائیں اور میں اپنے ایمان لانے کا اظہار کروں… اور پھر جب حضور ؐ نے اپنی نبوت کا اظہار و اعلان فرمایا تو میں نے اپنے ایمان لانے کا اظہار کرتے ہوئے فوراً بلا تامل آپ ؐ کی نبوت کی تصدیق کر دی۔حضور ؐ فرماتے ہیں کہ میں نے جس کسی کو بھی اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی اس نے جھجھک اور ترددّ سے کام لیا لیکن ایک ابو بکر صدیقؓ کی واحد ذات ہے جس کے اندر ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے میں کوئی تردد یا جھجھک نہ تھی بلکہ فوراً ایمان لائے…
مردوں میں سے حضرت ابو بکر صدیقؓ، بچوں میں سے حضرت علی المرتضیٰؓ، عورتوں میں سے ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰی ؓ اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ سب سے پہلے ایمان لائے آپ ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی قرآنی بشارت میں بھی سر فہرست ہیں۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا شروع کر دی اور آپ کی ہی دعوتِ اسلام پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبید بن زیدؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ فوراً ایمان لائے۔ ابھی تک دعوت اسلام کو خفیہ رکھا گیا تھا، اعلانیہ کسی کو دعوت نہیں دی گئی تھی… جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچ گئی تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اصرار پر حضورؐ اپنے ساتھیوں کو لے کر بیت اللہ میں اعلانیہ دعوت اسلام دینے اور اظہار نبوت کیلئے تشریف لے گئے، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں توحید و رسالت پر خطبہ شروع کیا یہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلا خطبہ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ پہلے خطیب ہیں… اسی دن حضورؐ کے چچا حضرت حمزہؓ اسلام لائے اور اس کے تین دن بعد حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ایمان لائے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں خطبہ شروع کرتے ہوئے ابھی دعوتِ اسلام دی ہی تھی کہ کفار و مشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شرافت و عزت اور عظمت کے باوجود ان کو اس قدر مارا کہ آپ لہولہان اور بے ہوش ہو گئے… آپ کے قبیلہ کے لوگ آپ کو اٹھا کر گھر لائے شام تک آپ بے ہوش رہے جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلے اپنے محبوب ؐکے حال کے بارے میں دریافت کیا… لوگوں نے کہا کہ اب بھی اس کا نام لیتے ہو جس کی وجہ سے یہ سب کچھ تمہارے ساتھ ہوا، آپ کی والدہ ’’ام الخیر‘‘ نے آپ سے کھانے پینے پر اصرار کیا… لیکن آپ مسلسل انکار کرتے ہوئے یہی اصرار کرتے کہ پہلے مجھے حضورؐ کا حال بتائو، آپ نے اس موقعہ پر حضورؐ کے عشق و محبت میں قسم کھا کر کہا کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کھائوں پیوئوں گا جب تک میں حضورؐ کی زیارت نہ کر لوں… آپ کی والدہ ام الخیر سے آپ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی اور وہ اس بات کا انتظار کرنے لگیں اندھیرا بڑھ جائے اور لوگوں کی آمدورفت بھی بندہو جائے تو میں آپ کو حضور اقدس ؐکی خدمت میں لیکر حاضر ہوجاؤں کہیں لوگ آپ کیساتھ دوبارہ نہ مار پیٹ کریں… اس وقت حضور اقدس ؐ ’’دار ارقم‘‘ میں تشریف فرما تھے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی والدہ آپ کو سہارا دیتے ہوئے وہاں پہنچیں تو حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضور ؐ کو دیکھتے ہی ’’فرطِ محبت‘‘ میں آپؐ سے لپٹ گئے، آپ کی حالت دیکھ کر رحمتِ کائناتؐ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے… اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضور ؐ سے درخواست کی یہ میری والدہ ہیں ان کی ہدایت و ایمان کیلئے دعا کریں… حضورؐنے دعا فرمائی اور اسلام کی ترغیب دی تو آپؐ کی والدہ ام الخیر اسی وقت اسلام قبول کرتے ہوئے دولتِ ایمان سے فیضیاب ہو گئیں… حضرت ابو بکر صدیقؓ کے والد عثمان ابو قحافہؓ مکہ کے باعزت لوگوں میں سے تھے شروع میں اسلام نہ لائے… ایک روز حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے والد ابو قحافہ ؓ کو لیکر بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اس وقت حضور ؐ مسجد میں تشریف فرما تھے ان پر نگاہ پڑی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اس کمزوری و مجبوری میں ان کو کیوں تکلیف دی مجھے کہا ہوتا… ابو قحافہؓ کے پاس مجھے خود جانا چاہیئے تھا۔ … جب ابو قحافہؓ آپؐ کے قریب آئے تو حضورؐ احتراماً کھڑے ہو گئے اور اپنے پہلو میں بٹھا کر بڑی محبت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے ہوئے نورِ ایمان سے منور کر دیا…۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے مال و دولت کو اسلام کیلئے وقف کر دیا، حضرت بلال حبشیؓ، عامر بن فہیرہؓ، نذیر بنت نہدیہؓ، زنیرہؓ وغیرہ مسلمان تھے لیکن کافروں کے غلام ہونے کی وجہ سے ظلم و تشدد اور مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیقؓ ان سب کو بھاری قیمت کے بدلے آزاد کروا کے حضورؐ کی بارگاہ میں لے آئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو معراج کی رات آسمانوں کی سیر کروائی جنت و دوزخ کو دکھایا، واپس آنے کے بعد جب حضور ؐ نے یہ عجیب سفر بیان فرمایا تو لوگ اس کو جھٹلاتے ہوئے مختلف سوالات کے ذریعہ مذاق کرنے لگے… لیکن ابو بکر صدیقؓ نے اس واقعہ کو سنتے ہی اس کی تصدیق کی تو حضورؐ کی زبان مبارک سے آپ کو ’’صدیق‘‘ کا لافانی لقب عطاء ہوا، اور آسمانوں سے خدا نے قرآن کی صورت میں وحی نازل کر کے اس کی تائید کی،ایک موقعہ پر حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے بھی ہم پر احسان کیا ہم نے اس کا بدلہ اسے دے دیا سوائے ابو بکر ؓ کے کہ اس کے احسانات کا بدلہ قیامت کے دِن اسے اللہ دے گا، کسی کے مال نے مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا نفع مجھے ابو بکرؓ کے مال نے دیا ہے۔
ایک مرتبہ حضور ؐ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو جنت کی بشارت و خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکرؓ تو غار میں بھی میرے ساتھ تھا اور حوض کوثر پر بھی میرے ساتھ ہو گا‘‘حضور سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ آپ ؐ کو لوگوں میں سے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ عائشہؓ سے، سوال ہوا کہ مردوں میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے تو آپ ؐ نے جواب میں فرمایا کہ عائشہؓ کا باب یعنی سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ۔
آپ ؐ کا ارشاد پاک ہے عمرؓ کی تمام نیکیاں ابو بکرؓ کی ایک (ہجرت کی) رات کی نیکی کے برابر ہیں۔خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓکے سامنے جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کا ذکر آتا تو فرماتے کہ ابو بکرؓ کی ایک رات اور ایک دن عمرؓ کی تمام زندگی کی عبادت سے کہیں بہتر ہے، رات غارِ ثور کی اور دن وہ کہ جس دن حضورؐ کا وصال ہوا۔ اس روز ابو بکر صدیقؓ نے جرأت ایمانی، استقامت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام فتنوں کی سرکوبی کی اور اسلام کی بقاء کیلئے مثالی اقدامات کر کے رسول اللہ ؐکے نائب ہونے کا حق ادا کر دیا۔
غزوہ تبوک کے موقعہ پر حضورؐ نے تمام صحابہ کرامؓ کو راہِ خدا میں مال جمع کرانے کا حکم فرمایا! حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میرے پاس بھی مال تھا میں نے سوچا کہ آج میں حضرت ابو بکر صدیقؓ پر سبقت لے جائوں گا اور میں نے نصف مال لا کر حضورؐ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا، حضور ؐ نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اتنا ہی، اس موقعہ پر حضرت عثمان غنیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓنے بھی راہ خدا میں بڑھ چڑھ کر مال دیا…لیکن سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے گھر کا تمام مال و اسباب لا کر حضور ؐ کے قدموں میں نچھاور کر دیا…حضور ؐ نے اس موقعہ پر حضرت ابو بکر صدیقؓ سے دریافت فرمایا کہ ابو بکرؓ تم نے اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑا ہے؟حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جواب میں عرض کیا کہ ’’خدا اور خدا کا رسول‘‘، سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کہتے ہیں کہ میں نے جواب سن کر دل میں کہا کہ اب میں کبھی ابو بکر صدیقؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا…
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ایک روزحضور اقدس ؐکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور ؐ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے فرمایا کہ تم دوزخ سے خدا کے آزاد کردہ ہو اسی روز سے آپ کا لقب ’’عتیق‘‘ ہو گیا، ایک موقعہ پر حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے پہلے ابو بکر صدیقؓ جنت میں داخل ہونگے۔حضور ؐکے ’’مرضِ وفات‘‘ میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضورؐکے حکم سے مسجد نبویؐمیں ’’مصلّٰیٰ رسولؐ‘‘ پر17 سترہ نمازیں پڑھائیں۔
حضور ؐکی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو متفقہ طور پر خلیفۃ الرسول اور جانشین بنایا گیا، حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بلافصل بننے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنایا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں نیک کام کروں تو اس میں میری مدد کرو اور اگر میں برا کروں تو مجھے ٹو کو! صدق امانت ہے اور کذب خیانت، تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں اسے اپنا حق نہ دلا دوں اور تمہارا قوی آدمی میرے نزدیک کمزور ہے جب اس کے ذمہ جو حق ہے وہ اس سے نہ لے لوں! جو قوم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و خواری مسلط کر دیتا ہے اور اگر کسی قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر بلائیں اور عذاب عام کر دیتا ہے۔تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو! لیکن اگر مجھے سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐکی نافرمانی کا پہلو نکلتا ہو تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے‘‘
خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انتہائی مشکل حالات میں نظامِ خلافت کو سنبھالا۔ ’’فتنہ ارتداد، جھوٹے مدعیان نبوت، مانعین و منکرین زکوٰۃ کے فتنہ نے طوفان کی صورت اختیار کر لی تھی، ان حالات میں آپ نے بڑی جرأت و بہادری کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے ان تمام فتنوں کا خاتمہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کفر کی دو بڑی طاقتیں روم اور فارس کو بھی شکست فاش دی،جس کے ساتھ ہی اسلام کی حدود پھیلتی چلی گئیں ۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ حضورؐ کی جدائی کے غم میں پریشان رہنے لگے، یہ صدمہ آپ کو ایسا لگا کہ برابر کمزور و نحیف ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ سفر آخرت کو اختیار فرمایا، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے غسل کیا تو سردی کی وجہ سے آپ کو سخت بخار ہو گیا، اس دوران نماز پڑھانے کیلئے مسجد تشریف لے جاتے… جب طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو حضرت عمر فاروق کو نماز پڑھانے کیلئے حکم دیا، اسی بیماری کے دوران آپ نے صحابہ کرامؓ کے مشورہ سے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو خلیفہ و جانشین مقرر کیا اور بیماری کی حالت میں بھی سہارا لیکر لوگوں سے خطاب کیا اوراس کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کو نصیحتیں فرمائیں۔
سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو وصیت فرمائی کہ مجھے میری دو زیر استعمال پرانی چادروں کو دھو کر اس میں کفنا دینا، مانا کہ میں تمہارا باپ ہوں، اگر عمدہ کپڑوں میں کفنایا گیا تو کچھ بڑھ نہ جائوں گا اور اگر پرانے کپڑے میں کفنایا گیا تو گھٹ نہ جائوں گا…اس کے ساتھ آپ نے یہ وصیت بھی کی کہ میرے مال میں سے پانچواں حصہ اللہ کے راستہ میں خیرات کر دیا جائے… اور فرمایا کہ دورانِ خلافت جس قدر میں نے رقم بیت المال سے لی ہے اس قدر جمع کروا دی جائے…
خلیفہ بلا فصل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے دو سال تین ماہ گیارہ دن نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد 63سال کی عمر میں وفات پائی، خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی… اور ’’روضہ رسول ؐ‘‘ میں اپنے محبوب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمدؐ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آج بھی آپ حضورؐ کے پہلو میں لیٹے جنت کے مزے لے رہے ہیں …رضی اللہ تعالیٰ عنہ