اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن اور اپنی سلامتی کیلئے ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے دور رہنے کا مشورہ دینے والے پہلے اپنے ذخیرے ختم کریں، عدم مساوات پر مبنی معاہدہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہوگا۔
کلنٹن انتظامیہ کے دور میں پاکستان پر ایٹمی تجربات پر پابندی کے سمجھوتے ’’سی ٹی بی ٹی‘‘ پر دستخط کرنے کیلئے ہر طرح کا دبائو ڈالا گیا اور اب امریکہ کی اوباما انتظامیہ کی طرف سے افزودہ مواد کے امتناع کے عالمی سمجھوتے ’’ایف ایم سی ٹی‘‘ پر دستخط کرنے کیلئے اسلام آباد کو مجبور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے اس معاہدے پر بجا تحفظات ہیں اس لئے دبائو کو خاطر میں نہیں لارہا۔اگر پاکستان ایف ایم سی ٹی کو قبول کر لے تو اسے انتہائی افزودہ یورینیم اور پلوٹونیئم کی مزید تیاری بند کرنا ہو گی۔یہی پابندی بھارت پر بھی ہو گی۔ بھارت کے پاس یورینیم اور پلوٹینم کے ذخائر پاکستان کے ذخائر کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ یہ مواد بھارت میں پیدا ہوتا ہے اور اس پر درآمد کی بھی پابندی نہیں۔ یہ مواد اسکے پاس افزودہ اور غیر افزودہ دونوں صورتوں میں موجود ہے۔ دونوں ممالک ایف ایم سی ٹی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں تو بھارت کے پاس یورینیم اور پلوٹونیئم کسی بھی مقصد پر استعمال کرنے کیلئے وافر مقدار میں ہو گی۔ بھارت کے اسلحہ جمع کرنے کے خبط نے خطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگاڑ رکھا ہے۔ اس نے یکطرفہ طور پر اسلحہ کی جو دوڑ شروع کر رکھی ہے موجودہ صورت میں ایف ایم سی ٹی پر دستخط کرنے سے اس میں مزید تیزی آئے گی۔ یورینیم اور پلوٹونیئم کے ذخائر کی دونوں ممالک کیلئے ایک سطح مقرر کر دی جائے تو پاکستان کیلئے یہ معاہدہ قابل قبول ہو سکتا ہے۔ امریکہ عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کی بات کرتا ہے۔ اس کارخیر کا آغاز بڑی طاقتیںخود شروع کریں تو تمام ممالک اسے فالو کر لیں گے۔ ملیحہ لودھی نے درست کہا کہ ایسا مشورہ دینے والے پہلے اپنے ذخیرے ختم کریں۔ پاکستان ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر دبائو ڈالنے والوں کو یہی مناسب جواب دیا جا سکتا ہے اور یہی پاکستان کا سرکاری دوٹوک موقف ہونا چاہیے جس کا اظہار ملیحہ لودھی نے کیا ہے۔