
حسب موقع ازقلم : رقیہ غزل
نامو ر انگریزی ادیب آسکر وائلڈ اپنی مشہور کہانی "The Nightingale and the Rose" میں محبت میں ہارے ہوئے ایک غریب نوجوان کی ذہنی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ نوجوان طالبعلم اپنے لان میں اوندھے منہ لیٹا رو رہا تھا کیونکہ اسے پروفیسر کی بیٹی سے محبت تھی جس نے خزاں کے موسم میں دوستی کے عوض سرخ گلاب مانگا تھاجس کا ملنا ناممکن تھالہذا وہ مایوسی و غم کے عالم میں بڑ بڑارہا تھا کہ میں نے فلسفہ و منطق کی سبھی کتابیں پڑھیں ، سمجھتا تھا کہ فہم و ادراک کی سبھی منزلیں پار کرچکا ہوں مگر آج محبت نے میری فکری و فنی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیا ہے اور سسکنے لگا ۔اس کی درد بھری سسکیاں سن کر ایک پودے کی اوٹ میں بیٹھی بلبل بھی تڑپ اٹھی۔ اس نے سوچا کہ میں برسوں سے جس محبت کی گیت گا رہی ہوں، نہ وہ چاند ستاروں میں ملی اور نہ ہی پھول بہاروں میں ملی وہ آج ملی ہے ،یہی تو سچا عاشق ہے جو محبت میں نڈھال ہو کر گر پڑا ہے ،اگر اسے محبت نہ ملی تو مر جائے گا ، اس کی مدد کرنی چاہیے ۔۔
بلبل نے اپنے پر پھیلائے اور اڑنے لگی تو لان کے درمیان ایک گلاب کے پودے پر نظر پڑی ۔وہ اس کی شاخ پر بیٹھ گئی اور کہا : پیارے پودے ! میری مدد کرو ،مجھے ایک گلاب چاہیے ،اس کے عوض میں تمھیں میٹھے گیت سنائونگی مگر پودے نے معذرت کر لی کہ میرے گلاب سفید ہیں سرخ نہیں ہیں ۔بلبل دوسرے پودے کے پاس گئی مگر اس نے بھی کہا کہ میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا کیونکہ میرے گلاب پیلے ہیں البتہ وہ جو لڑکے کی کھڑی کے نیچے پودا ہے وہ تمھاری مدد ضرور کرے گا ۔بلبل نے اس پودے کے پاس جا کر اپنی بات دہرائی ۔اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ میرے گلاب سرخ ہیں لیکن مجھ پہ ایسے خزاں اتری ہے کہ سخت سردی نے میرا خون جما دیا ہے ، برفباری نے میری کونپلوں کو خار دار جھاڑیوں میں بدل دیا ہے ، میں چاہ کر بھی تمھاری مدد نہیں کر سکتا ۔بلبل رونے لگی ،منت سماجت کی ،تلملائی کہ خدارا میری مدد کرو ورنہ محبت کرنے والے دو دل جدا ہو جائیں گے ۔تب پودے نے کہا کہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے گلاب کھل سکتا ہے لیکن اسے سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو ایسا کون کرے گا ۔بلبل نے کہا کہ میں ایک سرخ گلاب کی خاطر ہر کام کرنے کو تیار ہوں ۔پودے نے کہا کہ اگر پورے چاند کی روشنی میں تم اپنا سب سے میٹھا گیت گائو اور اپنے دل کے خون کو میری رگوں میں اتار دو تو میری خزاں رسیدہ شاخوں پر ایک گلاب کھل سکتا ہے ۔بلبل نے کہا کہ یعنی گلاب کی قیمت زندگی ہے ، صرف ایک گلاب کی اتنی بڑی قیمت مگر دوسرے ہی لمحے سوچا کہ محبت کے لیے یہ قیمت کچھ بھی نہیں کسی کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دینا بڑی بات نہیں اور انسان کے نزدیک ایک پرندے کی زندگی کی کیا اہمیت ہے ؟یہ بڑ بڑاتے ہوئے وہ اڑی اور لڑکے کے اوپر سے گزرتی اسے خوشخبری سنا گئی جسے لڑکا سمجھ نہ پایا اور پھر بڑ بڑایا کہ یہ پرندے محض فطرت کا حسن ہیں، انھیں انسانی جذبات اور غم سے کیا مطلب، بس خوشی کے گیت گاتے رہتے ہیں مگر قریب کھڑا برگد کا درخت سارا معاملہ سمجھ گیا جس کی شاخوں پر بیٹھ کر بلبل روز محبت کے گیت گاتی تھی ۔اس نے بلبل سے کہا کہ پیاری بلبل ! میں تمھارے بغیر بہت اکیلا رہ جائونگا ،ایسا نہ کرو مگر وہ پر عزم تھی تو برگد نے کہا کہ آج میرے لیے آخری گیت گائو ۔بلبل نے گیت سنایا تو لان کا ہر پودا رو پڑا، روفتہ رفتہ تاریکی چھانے لگی اورپھر چاندکی روشنی چار سو پھیل گئی ۔بلبل نے برگد کے درخت پر موجود اپنے گھونسلے پر الوداعی نظر ڈالی اور جا کرلڑکے کی کھڑکی کے نیچے لگے پودے پر بیٹھ گئی ۔
اس نے پودے کے کانٹے کے ساتھ اپنا سینہ لگا لیا اور محبت کا گیت گانے لگی۔ جیسے جیسے کانٹا اس کے سینے میں پیوست ہوتا گیا پودے کی رگوں میں بلبل کا خون اترتا گیا اور شاخیں ہر بھری ہوتی گئیں اور پھر ایک کونپل نمودار ہوئی مگر اس کا رنگ پھیکا تھا ۔پودے نے کہا کہ بلبل اپنے سینے کے اندر کانٹا اور لے کر جائو ،جلدی کرو ،یہ کام دن نکلنے سے پہلے کرنا ہے ،مجھے تمھارے دل کا خون چاہیے تبھی محبت کا گلاب کھلے گا اور یہ سن کر پورے لان پرسکوت مرگ طاری ہوگیا ،چاند تارے بھی ماند پڑ گئے جیسے وقت تھم گیا مگر بلبل نے پورا زور لگایا اور کانٹا اس کے دل کو چیرتا ہوا گزر گیا اور گلاب کا پودا چیخ اٹھا کہ دیکھو : سرخ گلاب مکمل ہوگیا ہے ،تم نے محبت کا گلاب کھلا دیا ہے مگر بلبل کی پر نم آنکھیں ساکت ہوچکی تھیں اور صبح کی سفیدی نمودار ہو چکی تھی ،پرندے چہچہا رہے تھے مگر وہ گیلی گھاس پر پر پھیلائے مردہ پڑی تھی اور سینے میں کانٹا ا تھا ۔اسی اثنا میں لڑکا بیدار ہوا اور اپنے کھڑی سے باہر دیکھا تو انتہائی خوبصورت گلاب دیکھ کر چیخ اٹھا کہ میں اسے ہر جگہ تلاش کر رہا تھا اور اسے فوراً توڑا اور لیکر پروفیسر کی بیٹی کے پاس پہنچااور کہا کہ میں تازہ گلاب لے آیا ہوں اب تمھاری میری دوستی پکی مگر لڑکی غصے سے بولی کہ مجھے چیمبر لین کے بھتیجے نے اصلی موتی تحفے میں بھیجے ہیں اور ان موتیوں کے سامنے اس گلاب کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔لڑکے کو غصہ آگیا اور کہا کہ سچ یہی ہے کہ تم اس گلاب کے قابل ہی نہیں تھی اور گلاب اٹھا کر باہر پھینک دیا جس پر سے گاڑی گزر گئی اور وہ خاک ہوگیا۔ لڑکی نے ترکی بہ ترکی جواب دیاکہ تم جانتے ہو تم کس قابل ہو تم تو اس قابل بھی نہیں کہ اپنے جوتوں کے لیے سلور بکل خرید سکو ۔لڑکا واپس اپنے کمرے میں آیا اور محبت کو بیکار چیز قرار دیکر اپنی فلسفے کی کتابوں میں کھو گیا ۔
قارئین کرام ! اس کہانی میں موجود بلبل، افواج پاکستان اور عام عوام ہیں جنھوں نے اپنے دل کا خون (اپنوں کی قربانیاں)دیکر دہشت گردی کے عفریت کو مٹایا اور فصیلوں میں چھپے دشمنوں کو وطن عزیز سے مار بگایا تھا جبکہ محبت کا کھیل کھیلتے لڑکا اور لڑکی وہ بے حس سیاستدان ۔وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی ہیں جنھوں نے اقتدار اور مفاد کی جنگ میں ان قربانیوں کو خاک میں ملا دیا ہے ۔پاکستان کو دشمنوں کے لیے آسان ہدف بنا یا اور لوٹ مار سے یہاں پہنچا دیا ہے کہ آج پھر دھرتی لہو لہو اور قحط سالی کا سماں ہے ۔عوام کے لیے ایک وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیا ہے ۔قربانیاں دے دے کر نیم مردہ لاشیں عوام کی پڑی ہیں اور یہ ہمارے سینوں میں مزید مہنگائی کا کانٹا چبو کر کہہ رہے ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ خزاں رسیدہ گلشن پر موسم گل اترے تو منہ زور مہنگائی کانٹے کو سینوں سے ہنسی خوشی گزارو ورنہ سب تباہ و برناد ہو جائے گا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ خود کوئی قربانی نہیں دینا چاہتے ،ان کے طرز حیات اور عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں آئی بس عوام کا جینا دو بھر کر دیا گیا ہے اور ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ مرے گلشن پہ کس نے اتارا درد کا موسم ،نحوست کیسے چھائی ہے نظر کس نے لگائی ہے؟ مگر۔۔ اے مقتل سجانے والو! ایسے دگر گوں حالات میں بھی ہم مایوس نہیں کیونکہ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا اور یقین رکھتا ہے کہ ’’ان اللہ علی کل شئی قدیر ‘‘ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ جو بھی کرے گا بہتر کرے گا ۔ہمیں یقین ہے کہ اب بھی وطن عزیز میں ایسے بلبل موجود ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد سے اس نفسا نفسی کے دور میں بھی قربانیاں دیکر آگ و خون اور بھوک کے موسم کو موسم گل میں بدل دیں گے اور بہت جلد یہ پکار سنائی دے گی کہ کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری ۔۔