ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس اور لاہور کی بھارت میں دھوم

لاہور کے بارے میں پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’جنھے لاہور نئیں تکیا، وہ جمیا ای نئیں‘‘۔
جادوئی انداز میں شہر کے شب و روز ، گلیاں بازار ، رونقیں ، محفلیں۔۔۔ سب رواں دواں زندگی کا احساس اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ جو یہاں مختصر قیام بھی کرے اسے لاہور سے عشق سا ہو جاتا ہے۔پطرس بخاری نے لکھا تھا ''لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں ،یہ ہم سب کا معشوق ہے اور مرتے دم تک معشوق رہے گا۔ ایکشن ری ایکشن کے اصول کے تحت جب کوئی ایک بار لاہور آ جاتا ہے تو وہ خود چاہے لاہور سے چلا بھی جائے ، لاہور اس کے اندر سے کبھی نہیں جاتا۔ یونہی ناصر کاظمی نے نہیں کہا تھا۔
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
لاہور کی ایک بڑی خوبی کہ یہ مختلف ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔ لاہور اپنی آغوش میں آنے والوں کو انکار نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی شہری آبادی میں توازن بڑی حد تک بگڑ کر رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے جتنے لوگ ہونگے اتنے ہی مسائل بڑھیں گے۔ اتنا ہی ویسٹ کا انبار لگے گا۔لاہور کے بارے میں ملک بھر میں یہ تاثر موجود ہے کہ اس شہر کاانفرااسٹرکچر بہتر حالت میں ہے۔ یہ تاثر بنا رہے، اس لیے وعدوں، دعوؤں اور مفروضوں سے بالاتر ہو کر کام کیا جا رہا ہے۔
لاہور شہر کو سوہنا اور صفائی ستھرائی قائم رکھنے کے لیے پنجاب حکومت کی شبانہ روز محنت ان کے کاموں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ضمن میں ایل ڈبلیوایم سی کا ادارہ پوری طرح متحرک ہے۔ادارے کی جانب سے شہر بھر میں صفائی کے یکساں معیار کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بلاناغہ مین روٹس کو کلئیرکرنے کے ساتھ ساتھ،روڈز کی سکریپنگ،مکینیکل واشنگ و سویپنگ اور مینول سویپنگ کروائی جاتی ہے۔شہر میں رکھے گئے کنٹینرز کو بروقت خالی کروایا جاتا ہے۔19 جون 2024ء کو پہلی بار صفائی ستھرائی کی نگرانی کے لئے لاہور میں سیف سٹی کیمروں اور ڈرون کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، سرکاری شعبے میں سینیٹشن کے جدید رجحان کی نئی روایت کا آغاز کیا گیا۔جس کے باعث نہر میں گندگی پھینکنے میں بڑی کمی ہوئی ، ڈرون نگرانی سے نہر میں گندگی اور آلائشیں پھینکنے میں 80 فی صد کمی آئی۔
لاہور رنگ روڈ کے شمال میں محمود بوٹی کیقریب کچرے کے اونچے ڈھیر دکھائی دیتے تھے۔ کوڑے کے یہ پہاڑ طویل عرصے سے حکام اور سیاستدانوں کی پریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے اور انہیں چیلنج کرتے تھے۔اس کچرے سے میتھین، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ جو نہ صرف مقامی شہریوں خاص طور پر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی(ایل ڈبلیو ایم سی) کے ملازمین کی صحت کے لیے بھی الارمنگ صورتحال بنے ہوئے تھے۔ مزیدبرآں کچرے کے یہ پہاڑ سموگ کو بھی دعوت عام دیتے تھے۔
ڈمپنگ سائٹ سے اٹھنے والی بدبو اور گیسوں کی وجہ سے مقامی لوگ علاقہ سے ہجرت کررہے تھے۔ ظاہر ہے تعفن زدہ فضا میں کون رہتا؟؟؟ نیز اسی باعث زیر زمین پانی بھی آلودہ ہو رہا تھا۔ مہمان اوررشتہ دار یہاں آنے سے گریز کرتے تھے۔ بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔۔۔ کچرے کے اس پہاڑ کو ایک ماحول دوست مقام میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس عظیم الشان پروجیکٹ کی گونج ہمسایہ ملک بھارت میں بھی سنائی دے رہی ہے کہ مودی سرکار ویسٹ ٹریٹمنٹس کے بارے میں سوچتی رہ گئی اور پاکستان نے مختصر عرصے میں وہ کر دکھایا۔ 
اس مقصد کے لئے کچرے کے اس ڈھیر کی اوپری سطح جسے اب ایک میدان کی شکل میں تبدیل کردیا گیا ہے اس میں مختلف مقامات پر تقریبا ایک فٹ قطر کے پلاسٹک کے پائپ نصب کئے گئے ہیں۔کچرے کے اس ڈھیر سے نکلنے والی میتھین گیس کو پانچ بلین روپے کی سرمایہ کاری سے قابل استعمال توانائی میں تبدیل کیا جائیگا جبکہ ا س منصوبے سے کارب کریڈٹ بھی حاصل ہوگا۔ سائٹ کے اوپری 11 ایکڑ رقبے پر ایک سولر پارک بنایا جائے گا جو تقریباً پانچ میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا جبکہ اطراف میں 31 ایکڑرقبے پر اربن فاریسٹری کیتحت مختلف درخت لگائے جائیں گے۔ یہاں واک ویز بھی بنائے جائیں گے۔ایل ڈبلیوایم سی کے چیف ایگزیکٹو آفسیر بابر صاحب دین نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 42 ایکڑ رقبے پر پھیلی اس لینڈفل سائیٹ سے گیس حاصل کی جائے گی جسے قریبی صنعتوں کو فروخت کیا جائے گا۔
تمام تر تناظر میں یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ فقط کوڑا اٹھانا کوئی کمال نہیں، اصل ٹاسک اس کچرے کوٹھکانے لگانا ہے۔ اور اسی کوڑے سے بہترین حکمت عملی سے ملکی آمدن میں اضافہ کرنا ہے۔ مزیدبرآں سب سے اہم کام کچرے کی پیداوار میں کمی ہے۔ یعنی کوڑا کم پیدا کرنا اور عوام میں اس بارے آگاہی پیدا کرنا۔ جب تک عوام میں اس حوالے سے شعور بیدار نہیں کیا جائے گا اس میں بہتری کی توقع نہیں ہو سکتی۔
ویسٹ ٹریٹمنٹس پلانٹس میں پاکستان بھارت سے نمبر لے گیا ہے۔ ایل ڈبلیو ایم سی کی مینجمنٹ قابلِ تحسین ہے۔ میرا یہ گمان ہے کہ اگر مستقبل میں اس ادارہ کو کوئی اور کمانڈ دی گئی تو یہ ادارہ اپنے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دے گا۔

ای پیپر دی نیشن