دو قومی نظریہ .... قیام پاکستان کی بنیاد ہے

محمد صادق جرال
دو قومی نظریہ دراصل قیام پاکستان کی بنیاد ہے اور یہ نظریہ بالکل درست ہے۔ قیام پاکستان کے پس منظر میں جھانکیں تو ہمیں دو قومی نظریہ کی تفصیل اور تعریف صحیح معنوں میں اس کی افادیت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دو قومی نظریہ کا تعلق صرف برصغیر سے ہی نہیں یہ نظریہ پورے کرہ ارض میں موجود ہے۔ اس نظریہ کے تحت ہم دنیا کو مسلم اور غیرمسلم میں تقسیم کر سکتے ہیں کیونکہ ہم امریکہ برطانیہ میں نہیں رہتے دونوں کو امریکی برطانوی اور چینی تو کہہ سکتے ہیں لیکن ان ممالک میں رہنے والے مسلمان ملتِ اسلامیہ کا فرد ہی رہیںگے۔ اسی طرح اسلامی ممالک میں رہنے والے یہودی اور عیسائی سینکڑوں برس رہنے کے باوجود ایک قوم نہیں بن سکتے۔
دو قومی نظریہ کے حوالے سے 30 دسمبر 1930ءکو آل انڈیا مسلم لیگ الہٰ آباد کے سالانہ تاریخی اجلاس میں علامہ محمد اقبال نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا، ”مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی“۔ اس لئے انہوں نے دو قومی نظریہ کے حوالے سے دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا
”مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں کہ اس میں صرف ایک قوم آباد ہے جو ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی زبان بھی ایک ہو ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے۔ جن کی نسل زبان مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔
ان کے اعمال و افعال میں وہ احساس پیدا نہیں ہو سکتا جو کہ ایک نسل کے مختلف افراد میں ہو سکتا ہے۔
علامہ اقبال کی یہ خواہش کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک علیحدہ تشخص ہو اور مسلمان ایک قابل قدر قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان کے نزدیک بہترین حل یہ ہے کہ مسلمانوں کا علیحدہ وطن ہو جہاں وہ اپنے دین اور روایات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔
علامہ اقبال نے 28 مئی 1937ءکو قائداعظم کو ایک خط لکھا کہ ہندوستان کے مسائل کا بہترین حل یہ ہے کہ ملک کو ایک سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس طرح مسلمان اسلامی شریعت بھی نافذ کر سکیںگے۔ علامہ اقبال نے قومیت کے نظریہ کو اجاگر کیا جو مسلمانوں کےلئے ایک آزاد اور خودمختار ممالک کے حصول کی بنیاد قرار دیا گیا۔
”جہاں تک دو قومی نظریہ کا تعلق ہے۔ یہ محض نظریہ نہیں حقیقت ہے۔ ہندوستان کی تقسیم میں اس حقیقت کو مدِنظر رکھا گیاہے اور باتوں سے قطع نظر اس حقیقت کی تصدیق حکومتِ ہندوستان کے اس اقدام سے بھی ہوتی ہے۔ اس نے پاکستان سے ہندوﺅں کو نکالنے کی کوششیں کی ہے۔ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ برصغیر میں ایک قوم رہتی ہے۔ کچھ واقعات اور حالات بھی ایسے ہو رہے ہیں جو اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہندوستان کی مملکت ایک ہندو مملکت ہے“۔دُنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں۔ اُن کی بنیاد اخوت اور انصاف پر ہے۔ ہندو ازم، درجہ بندی، عدم مساوات اور تقسیم انسانیت پر مبنی ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے کےلئے ہندوﺅں کے عزائم نے مسلمانوں میں باہمی اتحاد جداگانہ قومی تشخص کے مفید جذبات اور تحریکوں کو جنم دیا۔ ہندوﺅں نے اِن تحریکوں کی بھرپور مزاحمت کی۔ مسلمان اپنے تمدن، معاشرتی اقدار اور مذہب کو فطرات میں گھرا ہوا محسوس کرتے تھے۔ وہ اپنا تحفظ چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے شعور میں اپنے تحفظات کے جو جذبات پرورش پا رہے تھے۔ انہیں حصول پاکستان کے نام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد مملکت خداداد پاکستان میں مقیم اِن آزاد خیال خواتین و حضرات کو بتانا ہے کہ آپ ہندوستان میں ہندﺅوں کی ذہنیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ آپ صرف بھارت کی چمک سے آگاہ ہیں۔ اگر آپ نے پاکستان بنتے دیکھا ہوتا یا بزرگوں سے سُنا ہوتا تو آپ اس طرح نیوز چینل پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف بھارت کی ہمدردی میں ایک لفظ نہ کہہ سکتے۔ ماروی سرحد جن کا تعلق سفجا سے ہے انہوں نے پاکستانی ہوتے ہوئے دو قومی نظریہ کی دھجیاں اڑائیں پاکستان اور بھارت کی تقسیم سے یکسر انکار کیا۔ انہوں نے تحریک پاکستان کو جھٹلاتے ہوئے علامہ اقبال کے تصور کو غلط اور قائداعظم کو سیکولر قرار دیا۔ انہوں نے تو 5 لاکھ کشمیریوں کی قربانیوں اور کشمیر میں خواتین کی عصمت دری اور کشمیریوں کی پاکستان سے محبت سے بیزاری کا اظہار کیا۔ اُنکی ہر بات سے بے راہ روی اور بھارت سے محبت جھلکتی تھی۔ ان کی اس سفاکانہ جرات سے میڈیا کی آزادی پر حرف آتا ہے۔ کیا ہمارے نیوز چینل کی ذمہ داران کا نظریہ پاکستان اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کاش ایسے لوگ بھارت میں ہوتے تو ان کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہوتا۔ دو قومی نظریہ تحریک پاکستان کی روح اور قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ تاکہ عالم اسلام کو متحد کرے اور دو قومی نظریہ ہی عالم اسلام کی ترقی کا ضامن ہے۔ لہٰذا ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ کم از کم نظریہ پاکستان ٹرست جو کہ مجید نظامی کی قیادت میں دو قومی نظریہ کو پاکستانی قوم میں اجاگر کرنے کےلئے دن رات کوشش کر رہا ہے۔ سبق حاصل کرے اور قومی سطح پر ضابطہ اخلاق تیار کر کے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو پابند کر کے وہ دو قومی نظریہ پاکستان کے استحکام اور بقول قائداعظم شہ رگ پاکستان کی آزادی کےلئے اپنا کردار ادا کرے۔ ہم پہلے ہی سیلاب، ڈینگی اور دیگر مصیبتوں میں گھِر چکے ہیں۔ اس نازک وقت میں دو قومی نظریہ کی مخالفت قیامت سے کم نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن