بشیر اے شیخ
: پورپی ممالک کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی پروازوں پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے فیصلہ کیا گیا اور اسکی جس قدر بھی مذمت کی جائے یہ کم ہو گا کیونکہ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے لئے تھا بلکہ یہ پاکستان کے خود مختاری کے خلاف ہے اور یہ فیصلہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے خلاف ہے اور اس فیصلے سے پاکستان کے کروڑوں عوام کی دل آزاری ہوئی ہے جہاں تک پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کا تعلق ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز نے صرف یورپی ممالک بلکہ دنیا بھر کے تمام ممالک کے فضائی قوانین اور ضابطہ اخلاق کا ہمیشہ احترام کیا ہے اور یہی وجہ کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کو دنیا بھر خصوصی اہمیت حاصل تھی اور آج بھی ہے اور انشاء اللہ یہ جاری رہے گی جہاں تک پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی ساکھ اور کارکردگی کا تعلق ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ متحدہ عرب امارت کی ائرلائن جب معرض وجود میں آئی تھی تو اس نے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے فیملی ممبر کی حیثیت سے یعنی اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ متحدہ عرب امارات کی ائیر لائنز( ایمرٹس ائرلائن ) نے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے گھر جنم لیا اور اسی کی گود میں پرورش پائی اور آج اس نے دنیا بھر میں جو بھی مقام حاصل کیا ہے یہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی تربیت کی بدولت حاصل کیا ہے اسی طرح متحدہ عرب امارات کے علاوہ بھی متعدد ممالک کی ائرلائنز نے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی تربیت یافتہ ہیں اس لئے کسی بھی ملک یا ادارے کو پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی کارکردگی، اس کی ساکھ اور اس کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانک لینے کی عادت اپنانے کی ضرورت ہے اور اگر ہم پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے دائرے کار پر نظر دوڑائیں تو یہ واضح ہو جائے گا بلکہ دنیا بھر کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز نہ صرف پاکستان کی قومی ائیر لائنز ہے بلکہ پاکستان کے کروڑوں محب وطن پاکستانی عوام کی ملکیت ہے اور پاکستانی عوام اپنی اس قومی ائرلائنز سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور یورپی ممالک کی جانب پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کو یورپی ممالک کی فضائی حدود میں پابندی کو ناقابل قبول قرار دیتے ہیں اور ان سے اپیل نہیں بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس ظالمانہ فیصلے پر نظرثانی کریں اور کسی تاخیر کے بغیر اس کو واپس لیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے کروڑوں عوام یورپی ممالک کی فضائی حدود کا بائیکاٹ کر دیں اور اس سلسلے برطانیہ کے بادشاہ سلامت شاہ چارلس کو چاہیے کہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور زیادتی پر مبنی فیصلے کرنے سے باز پرس کریں اور اس سلسلے میں یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں پاکستان بھی برطانیہ کا ایک تھا اور جہاں تک اس کی آزادی کا تعلق ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا بھی برطانیہ کا حصہ تھا اور اسی لمحے اس کو بھی برطانیہ سے آزادی دی گئی تھی اور اگر ہم آج ماضی کے 78 برس پر نظر دوڑائیں اور پاکستان اور انڈیا کا موازنہ کریں (اور کسی ایمان دار ثالث سے جو کہ شاید کسی بھی ملک سے نہ مل سکے گا ) کہ برطانیہ نے پاکستان کے ساتھ کیسا برتاو رکھا اور انڈیا کے ساتھ کیسا برتاو کیا تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ برطانیہ نے پاکستان کے مقابلے میں انڈیا ناقابل بیان حد مراعات سے نوازا جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کو نظرانداز کیا گیا اس سلسلے میں عزت مآب شاہ چارلس سے التجا ہے کہ وہ پہلی فرصت میں پاکستان تشریف لائیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ پاکستانی عوام ان سے کس قدر پیار کرتے ہیں اور جہاں تک آپکی سرپرستی میں قائم یورپی ممالک کی جانب سے ہماری قومی ائیر لائنز پر پابندی کا تعلق ہے تو یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یورپی ممالک میں بھی گندے انڈوں کی کمی نہیں اور انہی گندے انڈوں کی پیداوار وطن عزیز پاکستان میں بھی موجود ہے اور یہ وہ ہی گندے انڈے ہیں جو پاکستان کی آزادی کے دشمنوں نے آزادی پاکستان کے وقت ایک سازش کے تحت یہاں پر چھوڑ دیے تھے اور اسی گندے انڈے کی نسل سے چند برس قبل اس وطن عزیز پر حکومت مسلط رہی تھی کہ جن کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کے لیے قومی اداروں کو تباہی سے دوچار کر دیا جبکہ قوم کو تقسیم کرنے اور ملک میں گالی گلوچ کو متعارف کرایا اور اسی حکومت میں شامل ایک گندے انڈے وزیر نے قومی ائیر لائن کو تباہی سے دوچار کیا تھا اور کوئی انصاف پسند ملک میں یہ گندہ انڈہ ہوتا تو شاید اب تک ملک دشمنی پر پھانسی کے پھندے پر پہنچ چکا ہوتا لیکن بدقسمتی ایسے گندے انڈوں کے ھاتھ بہت لمبے ہیں لیکن اب قدرت ایک ایسی شخصیت کو سپہ سالار پاکستان کے منصب پر فائز کیا ہے جن سے یہ توقع کی جارہی پاکستان کی سرزمین کو گندے انڈوں سے پاک کر دیا جائے گا