بجلی نرخوں میں ایک روپے کی کمی اور  پانی کے بلوں میں مزید اضافہ

 بجٹ مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف کا ایک تکنیکی مشن متوقع طور پر 4 اپریل کو پاکستان پہنچے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں بجٹ کے اہداف کا تعین کیا جائیگا اور ریونیو اقدامات سمیت بجٹ کے امور پر اتفاق رائے کے بعد ہی آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس ہوگا جس میں پاکستان کیلئے قرض کی قسط کی منظوری دی جائیگی۔ آئی ایم ایف نے بجلی ٹیرف میں اس لیوی سے حاصل آمدن کی حد تک ریلیف دینے پر اتفاق کیا ہے۔ تمام صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں ایک روپے یونٹ تک ریلیف ملے گا۔بجلی کی قیمت میں کمی کا اعلان چند دنوں میں ہوگاہے جس کااطلاق یکم اپریل 2025ء سے متوقع ہے۔حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان پانی مہنگا کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ 
حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ بجلی کے بلوں میں ہزاروں روپے کے ناجائز بھاری ٹیکس وصول کر رہی ہے‘ جبکہ اسکے نرخ میں صرف ایک روپیہ کی کمی کی گئی ہے جو دراصل حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی ایک اور شرط کے مطابق پانی کے بلوں میں اضافے کا عندیہ دیکر حکومت نے اس کمی کی کسر کئی گنا نکالنے کا اہتمام کرلیا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر پہلے ہی عوام کے ناتواں کاندھوں پر انکی سکت سے زیادہ بوجھ ڈال چکی ہے‘ جس کا ادراک حکومت کو بھی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے لئے گئے اب تک کے قرض سے معیشت تو بحال نہیں ہو سکی البتہ ملک قرض کے بدترین بوجھ تلے دب گیا ہے جس کی قسط کی ادائیگی کیلئے بھی حکومت کو اس ساہوکار ادارے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ معیشت میں اب تک جو بہتری نظر آرہی ہے‘ وہ چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے دوست ممالک کی معاونت سے آئی ہے جبکہ آئی ایم ایف سے لئے گئے ہر قرض سے پاکستان کے عوام کو اقتصادی مشکلات کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے بجائے اپنے وسائل اور دوست ممالک کی معاونت پر انحصار کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس مالیاتی ادارے سے مکمل چھٹکارا پایا جا سکے۔ عید کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے تناظر میں ہی حکومت کی جانب سے قوم کو یہ مژدہ سنایا گیا ہے کہ انہیں مزید قربانی دینا ہوگی۔ عوام تو پہلے ہی قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں‘ ان سے مزید قربانی لینا درحقیقت انہیں زندہ درگور کرنے کے ہی مترادف ہوگا۔ بہتر ہے کہ حکومت کو اب یہ بوجھ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کی طرف منتقل کرنا چاہیے جو ٹیکسز سمیت ہر قسم کے بلوں کی ادائیگی سے آزاد نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کو آئی ایم ایف کی ہر ڈکٹیشن پر بھی سرتسلیم خم کرنے سے گریز کرنا چاہیے‘ اگر اسکی ہر شرط من و عن مانی جاتی رہے گی تو اسکی طرف سے مزید کڑی شرائط سامنے آتی رہیں گی جس کا اظہار گزشتہ دنوں حکومت پہلے ہی کر چکی ہے کہ اگلے بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانی گئیں تو قسط نہیں ملے گی۔

ای پیپر دی نیشن