پاکستان کی تاریخ پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو بہت کم مواقع ایسے آئے ہیں کہ دنیا میں پاکستان کی عدالتوں کا وقار بلند ہوا ہو اور پانامہ فیصلہ بھی اُن چند گنے چنے فیصلوں میں نا صرف شامل ہوگیا بلکہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فیصلے ہونے کی وجہ سے بازی بھی لے گیا۔شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آج ہمارے ملک میں جس کے پاس دولت ہے وہی اصل طاقت ور ہے یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ طاقت کا اصل معیار آج کی دنیا اور بالخصوص پاکستان میں صرف اور صرف روپیہ پیسہ ہو کر رہ گیا ہے۔یہی وجہ تھی کہ جب پانامہ لیکس سامنے آئی تو دنیا میں تو کئی ممالک میں جو درحقیقت ذہنی اور قانونی طور پر اخلاق یافتہ اور ترقی یافتہ ہیں وہاں کہ وزراء اور وزیر اعظم فوری طور پر برطرف ہوگئے،۔۔۔ مگر ہمارے ملک میں چونکہ میں نا مانوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا روپیہ والا معاملہ ہے اس وجہ سے وزیر اعظم پاکستان کے خلاف فیصلہ دینے کے لئے سب سے بڑی عدالت کو بھی سامنے آنا پڑا اور اس سب سے بڑی عدالت نے ہر طرح سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو پورے مواقع دیے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں ۔ یہی وجہ تھی کہ بیس اپریل کو عدالت کے پانچ رکنی بنچ کے دو ججز نے تو اسی فیصلے میں میاں صاحب کو نا اہل قرار دے دیا مگر باقی تین نے اتنے بڑے فیصلے سے پہلے اور چھان بین ضروری سمجھی اور اس وقت ن لیگ نے مٹھائیاں بانٹنا شروع کردیں کہ فیصلہ ن لیگ کے حق میں آیا ہے اور اس وقت بھی ہم نے ان ہی صفحات پر اپنے کالم ’’ پکچر ابھی باقی ہے‘‘ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ مٹھائیاں بانٹنے کے بجائے جے آئی ٹی کی تحقیقات اور باقی ججز کے فیصلے کا انتظار کیا جائے تو بہتر ہے ۔۔۔ مگر طاقت اور دولت کے نشے میں چور نون لیگ والے ہر گزرتے دن کے ساتھ نا صرف اور شیر ہوتے گئے بلکہ جے آئی ٹی اور اس کے بعد سپریم کورٹ سے آنے والے کسی بھی مخالف فیصلے کو نا ماننے کے اشارے بھی دیتے گئے اور اس سلسلے میں نہال ہاشمی پر فرد جرم بھی عائد ہوئی اور دیگر کئی لوگوں کی تقریروں کے ریکارڈ بھی عدالت نے طلب کرلئے، دوسری جانب عدالت کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل ان افراد پر مشتمل ٹیم سے کی گئی کہ جن کا ماضی بے داغ تھا اور وہ چھ کے چھ اپنے اپنے کام کے ماہر بھی تھے۔ جوں جوں تحقیقات آگے بڑھ رہی تھیں لوگوں کو آنے والے فیصلے کا اندازہ ہونے لگ گیا تھا ۔۔۔ بس ایک ڈر تھا کہ کیا طاقت ور مافیا کے آگے پہلے جے آئی ٹی اور پھر ججز ڈٹ پائیں گے مگر پھر آج فیصلہ آنے کے بعد اندازہ ہوا کے ہم نے بھی علامہ اقبال کی شاعری کے کئی برس قانون کی بے نوری کے دیکھے ضرور مگر اس جے آئی ٹی کے چھ اور عدالتی بنچ کے پانچ ججز پر مشتمل ٹیم نے دیدہ ور پیدا ہونے کے اقبال کے فلسفے کو سچ ثابت کر دکھایا۔پانامہ کے اس تاریخی فیصلے سے کسی کو خوش یا کسی کو رونے کے بجائے اس بات پر غور و فکر کرنا چاہیئے کہ اگر ہماری عدالتیں اس طرح ملک کے طاقتور ترین وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کرواسکتی ہیں اور آزادانہ فیصلے دے سکتی ہیں تو پھر دیگر لوگوں کو تو اپنا حشر سامنے دیوار پر لکھا دیکھ کر ملک کے کسی بھی ادارے اور پارلمنٹ کی نشست سنبھالنے کے بعد صرف اور صرف ملک اور قوم کی ترقی کے لئے کام کرنے کی اپنے اندر اُمنگ پیدا کرنی چاہیئے، اپنے کام اور ذمہ داریوں سے انصاف کر کے سرخرو ہو کر اس دنیا سے جانا چاہیئے کیونکہ سب نے چار کاندھوں پر سوار ہو کر ایک جیسی اندھیری قبر میں جانا ہے جہاں صرف اور صرف اس کی اچھائیاں اور اچھے اعمال ہی کام آکر قبر کو روشن کرکے اس کے عذاب سے بچا سکیں گے ورنہ یہاں تو نا اہل ہو کر اپنا سب کچھ گنوائیں گے ہی ۔۔۔ قبر اور آخرت کے دردناک عذاب کا بھی ان سب کو سامنا کرنا پڑے گا جو سیاست اور قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اربوں روپے لُوٹ کر باہر بنکوں میں رکھنے والوں کو چاہیئے کہ سب دولت واپس لا کر ملک کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرواکر ہر فرد کی زندگی کو آسان بنا نے میں اپنا کردار ادا کرکے دنیا بھی سمیٹ لیں اور آخرت بھی ورنہ آج نواز شریف صاحب گئے ہیں کل کسی اور کی باری بھی آسکتی ہے کہیں وہ آپ ہی نہ ہوں۔سپریم کورٹ زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔