آٹھ صدیوں سے درگاہ حضرت غریب نواز اجمیر شریف سے سجادگان درگاہ قطب صاحب پر چادریں لے کر آتے ہیں

 مخدوم المشائخ صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی کا تعلق حضرت خواجہ غریب نواز، سلطان الہند، خواجہ بزرگ، ہندالولی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیر کے خانوادے جانشین خانقاہ عالیہ چشتیہ حلیمیہ محبوب منزل اجمیر شریف سے ہے اس وقت حضرت خواجہ غریب نواز کے آستانہ پر سات خاندانوں کے سجادے سات دن باری باری گدی کو زینت بخشتے ہیں۔ مخدوم المشائخ صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی کا خاندان بھی وہاں مسند نشین ہوتا ہے۔ سید علی حمزہ چشتی سے بات کرکے روحانی خوشی ہوئی کہ وہ صرف سلسلہ چشتیہ کے  ماہ منور و ماہ تاباں حضرت خواجہ غریب نواز کی درگاہ سے ہی وابستہ نہیں بلکہ سلسلہ کے دیگر خلفاء کرام حضرت خواجہ غریب نواز کے جانشین خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت مخدوم صابر پاک اور دیگر اولیاء کرام سے ناصرف عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں روحانی اور دنیاوی معلومات کا ذخیرہ بھی ہے۔ انہیں یہ وصف اور اعزا اپنے پڑدادا صاحبزادہ سید محمد رفیع میاں چشتی، دادا تہذیب ملت صاحبزادہ سید محمد حلیم میاں چشتی اور والد محب العاشقین صاحبزادہ سلطان عالم میاں چشتی کی ان درگاہوں سے نسبت اور ان کی غیر معمولی خدمات کے صلے میں ملا ہے۔
صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے سالانہ عرس مبارک کے حوالے سے بتایا کہ بارہ ربیع الاول کو اجمیر شریف کی خصوصی چادر لیکر نکلتے ہیں۔ دوپہر تین بجے سے عصر تک بلند دروازہ پہنچتے ہیں پھر بکے میں بند کرکے درگاہ شریف لے جاتے ہیں۔13 ربیع الاول کو دوبارہ درگاہ شریف کھلتی ہے، مین دروازے پر موجود پتھر پر جہاں حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھتے تھے وہاں صاحبزدگان کھڑے ہو کر رسم ادا کرتے ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی حضرت قطب پاک سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ مزار شریف پر حاضر نہیں ہوتے تھے بلکہ دور سامنے دروازے کے پاس پتھر پر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی اور دعا مانگتے تھے، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کابھی حضرت داتا گنج بخش سے عقیدت کا یہی عالم تھا کہ وہ گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ٹبہ فریدیہ سے آتے اور درگاہ شریف کے دروازے کے باہر ہی فاتحہ خوانی کرتے۔ صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی نے بتایا کہ دربارشریف  پر عشاء کے بعد چادر کی رسومات ادا ہوتی ہیں دیگر زائرین بھی ان کے پیچھے چادریں پیش کرتے ہیں۔ صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی نے بتایا کہ 1947ء کے بعد حالات خاصے کشیدہ تھے لیکن میرے پڑدادا صاحبزادہ سید محمد رفیع میاں چشتی پہلی بار اجمیر شریف سے چادر لے کر حضرت قطب صاحب کی بارگاہ پر آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم عرس میں نہیں جائیں گے تو عرس کون کرے گا؟ کیونکہ حضرت قطب صاحب کے وصال کے بعد صدیوں سے اجمیر شریف سے سجادگان چادر لیکر درگاہ شریف پر آیا کرتے اس روایت کو میرے پڑدادا نے نامساعد حالات میں پھر سے جاری کیا۔1992ء میں میرے دادا تہذیب ملت سید محمد حلیم میاں چشتی نے اس رسم کو جاری رکھا ویسے بھی یہ ذمہ داری اجمیر شریف کے صاحبزادگان کی ہے جو حضرت خواجہ غریب نواز نے انہیں سونپی تھی سید محمد حلیم چشتی نے 1994ء میں درگاہ کمیٹی کے تعاون سے لنگر کا اہتمام شروع کر دیا۔ یہ قمر محمود صاحب کا دور تھا رات کو حضرت قطب صاحب کے علاقے مہرولی میں سناٹا ہو جاتا تھا انہوں نے درگاہ کمیٹی کو کہہ کر یہ لنگر شروع کرایا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی نے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے اپنے گھرانے کی بے پایاں عقیدت و خدمات کے حوالے سے بتایا کہ 1946ء میں حضرت قطب صاحب کے گنبد کا کام ہو رہا تھا جو 1947ء کی شورش زدگی کے باعث رک گیا1992ء تک گنبد اور جالیوں کا کام مکمل نہ ہو پایا درگاہ شاہ فراز سلسلہ کے لوگ کچھ مرمت کر جاتے تھے لیکن گنبد بارشوں میں ٹپکتا رہتا،1971ء میں درگاہ کمیٹی کی جانب سے ہمارے دادا حلیم میاں چشتی کو خط ملا کہ گنبد اور دیگر تعمیر و مرمت کا تخمینہ پندرہ ہزار روپے ہے اگر آپ یہ خدمت انجام دے سکیں۔ حلیم میاں چشتی متفکر ہوئے اور کشمکش میں مبتلا تھے کہ اتنی رقم کا یکمشت انتظام کیسے کر پائیں گے۔
یہی سوچتے ہوئے خانقاہ میں سو گئے۔ صبح بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بستر کے نیچے پندرہ ہزار روپے رکھے تھے، آخر حضرت خواجہ غریب نواز اپنے جانشین و محبوب خلیفہ کی درگاہ کا کام ادھورا کیسے گوارہ کر سکتے تھے دادا جان نے اسے حضرت خواجہ غریب نواز کی کرامت اور ہدیہ جان کر اٹھا لیا اور دہلی مہر ولی پہنچ کر گنبد میں کانچ اور ماربل کا تمام کام مکمل کرایا۔ یہی نہیں چھ دسمبر1998ء میں ساڑھے ستائیس کلو چاندی کادروازہ درگاہ حضرت قطب صاحب میں نصب کرایا۔
برادر عزیز صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی جس طرح سے اپنے دادا جان قبلہ حلیم میاں چشتی کی حضرت خواجہ قطب الدین بختار کاکی سے والہانہ، وارفتگی و عقیدت کا ذکر کر رہے تھے اس سے ان کے لیے غائبانہ نسبت و عقیدت کے جذبات پیدا ہو رہے تھے کہ انہوں نے کیا قسمت پائی تھی۔ صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی نے بتایا کہ درگاہ شریف پر بلند دروازہ کے قریب جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء فاتحہ پڑھا کرتے ہمارے دادا جان حلیم میاں چشتی نے اس پتھر کو اٹھا کر دیوار میں نقاشی اور تعارف کے ساتھ نصب کرایا، تمام مشائخ وعظام حضرت محبوب الٰہی کے اس پتھر کو چوم کر آگے بڑھتے ہیں۔ یہی نہیں حلیم میاں چشتی نے درگاہ قطب صاحب کے ستونوں پر سونے کا کام بھی کرایا، شجرہ عالیہ پر بھی ماربل لگوایا، دروازے کے باہر اور حضرت مولانا فخر الدین دہلوی کے مزار پر بھی سونے کا کام کرایا۔ ہمارے دادا جان نے لنگر خانے میں زائرین کے لئے حجرے بھی بنوائے جو دو سال قبل مہندم ہوگئے تھے۔ جنہیں انشاء اللہ اب دوبارہ تعمیر کرانے کا ارادہ ہے۔
صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی نے بتایا کہ ہمارے دادا جان نے 1987ء میں بھی درگاہ قطب صاحب پر زائرین کی سہولت کے لئے پتھر لگوائے تھے۔ صاحبزادہ سید علی حمزہ چشتی کو خواب میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی زیارت ہوئی، وہ درگاہ شریف پر کمرے میں لیٹے محو خواب تھے کہ حضرت قطب صاحب نے دیدار کا شرف بخشا اور فرمایا کہ تمہارے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوگا۔ اور قطب صاحب کی دعا سے اور برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے جیسی نعمت سے نوازا، اس کا نام انہوں نے صاحبزادہ سید محمد علی مرتضیٰ چشتی عطائے خواجہ قطب رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ1947ء کے بعد مہرولی میں بہت سی سماجی، معاشرتی، مذہبی تبدیلیاں آئیں دن کو حضرت قطب صاحب کے عرس کی خوب گہما گہمی ہوتی لیکن رات ہوتے ہی سب خالی خالی لگتا، یہ دیکھ کر ہمارے دادا جان حلیم میاں چشتی نے پندرہ ربیع الاول کی شب جشن خواجہ قطب، محفل سماع اوردعائیہ تقریب شرو کی اور یوں عرس کی اختتام تقریب کو بھی شایان شان طریقہ سے جاری رکھا۔ صاحبزادہ سید حمزہ علی چشتی نے بتایا کہ ہم بچپن سے درگاہ قطب صاحب پر ایک درویش صفت انسان طیب بابا کو دیکھ رہے ہیں جو حضرت قطب صاحب کی اہلیہ کے مزار مبارک کی خدمت پر مامور ہیں وہ دنیا سے کوئی محبت اور لگائو نہیں رکھتے اور دنیا داروں کو بھی اس عارضی دنیا سے بہت زیادہ تعلق رکھنے سے منع کرتے ہیں1974ء میں قطب صاحب کے عرس کے بعد شب کو یہاں سے دہلی کے لئے سواری نہیں ملتی تھی ہمارے دادا کے پیر بھائی پروین شاہ (رشی کیش) دہلی ٹرانسپورٹ آفس گئے اور وہاں سے چادر اٹھنے کی آخری شب اور آخری بس کا ٹائم گیارہ بجے کرایا تاکہ زائرین کو شہر اور گھروں کو جانے میں دقت نہ ہو۔ صاحبزادہ سید حمزہ علی چشتی سے روحانی گفتگو اور معلومات بہت سیر حاصل تھیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کے دادا، پڑدادا، والد کا فیضان اسی طرح جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت قطب صاحب کے منظور نظر اور ان کے لخت جگر صاحبزادہ سید محمد علی مرتضیٰ چشتی کی خوشیاں دیکھنا نصیب فرمائے۔ آمین آخر میں برادرم صوفی ریاض احمد صابری کا شکریہ جنہوں نے ان سے تعارف کرایا اللہ تعالیٰ اس کا اجر عظیم عطا کرے آمین۔

ای پیپر دی نیشن