پہلگام: جنگی تیاریاں، امکانات؟

ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے دو جوہری ہمسایوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے سر اٹھایا ہے۔22 اپریل 2025ء کو پہلگام میں پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ، جس میں 28 سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا، دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اور خطرناک موڑ کا پیش خیمہ بن گیا۔ بھارتی میڈیا اور عسکری ہاکس نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے جنگی زبان اپنائی، لیکن اس سارے منظرنامے میں جو چیز سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ ایسی کئی وارداتیں ماضی میں "فالس فلیگ آپریشنز" ثابت ہو چکی ہیں۔واقعہ کے فوری بعد بھارتی اقدامات جن میں پاکستان پر ویزا پابندیاں، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، سفارت کاروں کی بے دخلی و تعداد  میں کمی اور واہگہ اٹاری بارڈر کی بندش شامل ہیں یہ مزید سخت اقدامات کی ابتدا سمجھے جاریے ہیں، لیکن ان کے بعد بھارت کی جانب سے عسکری کارروائی کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ یہی کچھ بھارت 23 اپریل 2025ء کو کر سکتا تھا جو اس نے کر لیا۔
اس بار معاملہ صرف ایک دہشت گردی کے واقعے تک محدود نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی شخصیت، یعنی امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس بھارت کے دورے پر ہیں۔ ماضی میں بھی ایسی اہم سفارتی سرگرمیوں کے دوران بھارت میں دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سے کئی بعد میں خود بھارت کی ’’گہرائیوں میں چھپی حقیقت‘‘بن کر سامنے آئے۔پہلگام میں دہشت گردی کی تاریخ نیا موڑ نہیں بلکہ اسکی جڑیں 1995ء میں ہونے والے الفران آپریشن سے جا ملتی ہیں، اسی جگہ اسی مقام پر جب چھ غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کیا گیا۔ اس آپریشن کے پیچھے جس گروہ کا نام لیا گیا وہ بعد ازاں ایک فیک تنظیم ثابت ہوئی، اور انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق یہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی ایک چال تھی تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔  ناروے کے شہری کا سر قلم کر کے اسے پہاڑوں میں پھینک دیا گیا تھا۔
مارچ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے علاقے چٹی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کو رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکال کر قتل کر دیا گیا۔ بھارت نے فوری الزام پاکستان پر لگا دیا۔ بعد میں ایک ہندوستانی بریگیڈیئر کی زیر نگرانی کئے گئے جعلی "انکاؤنٹر" میں پانچ کشمیری نوجوانوں کو مار کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہی قاتل تھے، مگر وہ بے گناہ ثابت ہوئے۔ اس واقعے نے نہ صرف بھارت کی ساکھ پر سوالات اٹھائے بلکہ فالس فلیگ آپریشنز کے تصور کو تقویت دی۔ چٹی سنگھ پورہ سانحہ کا تذکرہ بل کلنٹن نے اپنی کتاب میں بھی کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ یہ سارا شدت پسند ہندوؤں کی طرف سے کیا گیا تھا۔
2008ء کا ممبئی حملہ، 2016ء کا پٹھان کوٹ ایئر بیس حملہ، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے۔ یہ سب واقعات ابتدا میں پاکستان کے کھاتے میں ڈالے گئے لیکن بعد میں ان میں بھارتی شدت پسند تنظیموں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی شمولیت کے ثبوت منظر عام پر آئے۔ کرنل پروہت اور سوامی اسیما نند جیسے افراد کے بیانات نے ان کارروائیوں کے پیچھے ہندوتوا نظریے اور ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا۔
ادھر پہلگام میں دہشتگردی ہوتی ہے، اْدھر بھارت آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ پاکستان پر الزامات و دھمکیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ فالس فلیگ یہ اس لیے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کو آج کل وقف بل کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ احتجاج اور مظاہرے پورے ملک میں ہو رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ چھ دہشت گردوں کو مقامی سپورٹ حاصل تھی، مطلب کہ ان کی سہولت کاری کی گئی تھی۔ اب ہر کسی کو مودی سرکار کی طرف سے سہولت کار قرار دے کر گرفتار کیا جا سکے گا۔جعفر ایکسپریس اس سے کہیں زیادہ بھیانک سانحہ تھا اور اس میں دو رائے نہیں کہیں نہ کہیں بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کو بھارت کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ یہاں ہمیں اپنے میڈیا بلکہ رجیم سے بھی گلہ ہے کہ وہ جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کو عالمی سطح پر اس طرح نہیں اٹھا سکے جس طرح بھارت کی طرف سے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
پہلگام حملے کے بعد بھارت کے داخلی منظرنامے میں جس چیز نے سب سے زیادہ خطرناک رنگ اختیار کیا وہ بھارتی میڈیا کا جنگی جنون ہے۔ ہر چینل، ہر اینکر، ہر ڈیبیٹنگ ٹیبل پر صرف ایک مطالبہ ہے  ’’پاکستان پر حملہ کردو۔‘‘ ریٹائرڈ جنرل بخشی اور سابق ڈی جی پی ،ایس پی وید جیسے افراد کھلے عام پاکستان کو’’توڑنے،فوج میں بغاوت کروانیاور آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔ گوسوامی اور گورو آریہ جیسے لوگوں کی زبان بھی زہر اور انگارے اگل رہی ہے۔ یہ بھی پاکستان کو چیلنج کر رہے ہیں اور جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بخشی تو کہتے ہیں کہ پاکستان چھوٹا سا ملک ہے، اسے مسل کے رکھ دیں۔
انڈین ہاکس میں ایک قدر مشترک ہے… پرانی بوتل، پرانا لیبل، پرانی شراب اور ان کی پرانی زبان۔ پنجاب، پنجاب کی رٹ لگا رہے ہیں۔ کال دے رہے ہیں بلوچستان، کے پی کے، سندھ اور آزاد کشمیر کو کہ پاک فوج کے خلاف بغاوت کر دو۔ جنگ کا زعم اس لیے ہے کہ بھارت بہت بڑا اور پاکستان اس کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے۔
"Size does not equal strength"
 بڑے سائز کا مطلب  طاقتور ہونا نہیں ہے۔
ورنہ تو روس اور امریکہ افغانستان سے رسوا ہو کر نہ نکلتے۔ امریکہ ویتنام کو تسخیر کر چکا ہوتا۔ جنگ بڑے سائز سے نہیں، ہمت، حوصلے، جان، جنون اور’’ پاگل پن‘‘ سے جیتی جاتی ہے۔ اس تمام صورتحال میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک تاریخ بار بار یاد دلائی جا رہی ہے: 27 فروری 2019۔ یہ وہ دن تھا جب پاکستان نے بالاکوٹ حملے کے جواب میں ’’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ‘‘ کے تحت دو بھارتی طیارے مار گرائے، ایک پائلٹ ابھی نندن گرفتار ہوا۔ مودی کے لیے یہ دن ایک ’’نائٹ میئر‘‘ بن چکا ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اس بار بھی کسی مہم جوئی کی کوشش کی گئی تو نتائج مزید بھیانک ہو سکتے ہیں۔
بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز اور جنگی بیانیہ نہ صرف خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود بھارت کے جمہوری ڈھانچے اور ساکھ کو بھی کمزور کر رہا ہے۔ اس کی مودی سرکار کو پاکستان دشمنی میںپروا نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا، فوج، اور سیاسی قیادت اگر مل کر صرف جنگ کی بات کریں گے تو ایک نہ ایک دن یہ شعلے سب کو جلا ڈالیں گے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ سفارتی محاذ پر بھرپور طریقے سے بھارت کے ان اقدامات اور الزامات کا جواب دے اور عالمی برادری کو فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ سے آگاہ کرے۔

ای پیپر دی نیشن