بھارت کی آبی وسفارتی جارحیت

مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہوا جس کے نتیجے میں 26 سیاح جاں بحق ہو گئے۔ بھارتی حکومت نے حسب معمول جلد بازی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ اس نوعیت کے فالس فلیگ اپریشن ماضی میں بھی کیے جا چکے ہیں۔2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ ہوا تو اس دہشت گردی کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا لیکن بعد میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس واقعہ کا ماسٹر مائنڈ میجر رمیش تھا۔ 2008ء کے ممبئی حملے، 2018ء میں کیرالہ میں سیاحوں پر حملے، 2019ء میں پلوامہ حملے۔ ان سب کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی گئی مگر اس سلسلے میں کوئی شواہد سامنے نہ آ سکے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پہلگام واقعہ کی مذمت کی ہے اور جاں بحق ہونے والے افراد کے عزیز و اقارب سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ کانگرس کے لیڈروں سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے پہلگام واقعہ کو کشمیر کی اندرونی صورتحال اور بھارتی حکومت کی ہندوتوا ذہنیت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی حکومت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے۔ اٹاری واہگہ بارڈر کو بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان ہائی کمیشن کے دفاعی اتاشی اور مشیر کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر بھارت سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بھارت میں مقیم پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ بھارتی حکومت نے پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 55 سے کم کر کے 30 کر دی ہے اور سینیئر اہلکاروں کو بھارت واپس آنے کا حکم جاری کیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پی پی پی، تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے بھارتی الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ عسکری اور دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق پہلگام کا واقعہ مقبوضہ کشمیر میں جبر و تشدد اور انتقامی کارروائیوں کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر سید مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعہ کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے لیے بہانہ بنایا ہے سکیم کے تحت بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ بھارت پاکستان کا پانی روکتا ہے تو یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور جنگ کے مترادف ہوگا۔ مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ بھارت کو بھرپور جواب دینے کے لیے ہم ہر سطح پر تیار ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا یو این چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل اور ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سندھ طاس معاہدے کا ضامن ورلڈ بینک ہے۔ اگرچہ تا حال اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی جبکہ حکام کی جانب سے بھی اس ضمن میں کچھ نہیں کہا گیا ہے تاہم انڈین چینلوں پر سابق فوجی اور سلامتی کے امور کے ماہرین اس حملے کا الزام پاکستان اور پاکستانی فوج پر لگاتے نظر آتے ہیں۔ بھارتی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار سید عطا حسین نے این ڈی ٹی وی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ اسرائیل پر سات اکتوبر کے حماس حملے کی کاپی ہے۔ یہ حملہ سکیورٹی فورسز پر نہیں کیا گیا، یہ غیر مسلموں پر کیا گیا ہے۔ یہ حملہ پورے ملک پر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے نجی ٹی وی چینل  پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈین میڈیا کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا من گھڑت اور جھوٹا ہے۔ فالس فلیگ کا ڈرامہ رچانا انڈین روایت ہے۔ جلیل عباس جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو بجائے تحقیقات کے انڈیا پاکستان پر الزام دھر دیتا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے انڈیا اس واقعے کی مکمل چھان بین کرے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ انڈین ایجنسیاں اس نوعیت کی دہشت گردی کے واقعات میں خود ملوث ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں انڈیا کی جانب سے پاکستان کے علاوہ کینیڈا اور امریکہ سمیت مختلف ممالک میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھارت کیملوث ہونے کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان پر الزام لگانا انڈیا کا پرانا وتیرہ ہے جس پر عالمی برادری یقین نہیں کرتی۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس میں ملکی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھارت سے ہر قسم کی تجارت، واہگہ بارڈر اور فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کیا اور بھارت کی جانب سے 23 اپریل کو کیے گئے یکطرفہ اقدامات کو سیاسی مقاصد کے تحت غیر منصفانہ، غیر ذمہ دارانہ اور قانونی جواز سے عاری قرار دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کشمیر ایک حل طلب تنازعہ ہے جو اقوام متحدہ  کی قراردادوں کے تحت تسلیم شدہ ہے پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔ بھارت کا ریاستی جبر، ریاست کی خود مختاری کے خلاف تبدیلیوں کی کوششیں کشمیری عوام کے فطری رد عمل کا باعث بنتی ہیں جو تشدد کے دائروں کو جنم دیتی ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف منظم ریاستی جبر میں اضافہ ہوا ہے۔ وقف ایکٹ کی جبری منظوری اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی ہر شکل کی مذمت کرتا ہے اور اسے اس حوالے سے دنیا کا صف اول کا ملک سمجھا جاتا ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق پاکستان بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور خبردار کرتا ہے کہ پانی کی روانی میں کسی بھی رکاوٹ کو اعلان جنگ تصور کیا جائے گا جس کا ہر سطح پر مکمل جواب دیا جائے گا۔ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے پیش نظر پاکستان نے تمام معاہدوں بشمول شملہ معاہدہ کو بھی معطل رکھنے کا حق محفوظ رکھا ہے۔ جب تک بھارت دہشت گردی سرحد پار قتل اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں سے باز نہیں آتا اس کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر 30 اپریل 2025ء تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کو 30 تک محدود کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود بھارتی ملکیتی یا بھارتی اپریٹڈ ایئر لائنز کے لیے فوری طور پر بند کی جا رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارتی سرگرمیاں خواہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہوں، فوری طور پر معطل کی جاتی ہیں۔ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں اور کسی بھی مہم جوئی کا موثر اور بھرپور جواب دیں گی جیسا کہ فروری 2019ء میں دیا گیا تھا۔ بھارت اور پاکستان دونوں کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ وہ افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کریں اور غربت کے خاتمے پر پوری توجہ دیں ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن